Alvida Ali Baba Taj
الوداع علی بابا تاج

میں 2003 میں بلوچستان یونیورسٹی پہنچا تو میرے لیے ادارہ اور شہر اجنبی تھے۔ گو کہ بڑے ماموں آل ریڈی یہیں تھے، مجھ سے تین چار برس بڑا ارشاد فارمیسی کے دوسرے تیسرے برس میں تھا۔ وہی یونیورسٹی کے دوستوں میں میرے تعارف کا سبب بنا۔ اس کے حلقہ احباب میں عظیم انجم ہانبھی، علی بابا تاج، صادق مری، آفتاب احمد اور کچھ دیگر دوست بھی تھے۔ انھوں نے کوئی ادبی تنظیم بھی بنا رکھی تھی۔ یہ لوگ بالخصوص آزاد اور نثری نظم کی ترویج کا کام کرتے تھے۔ کوئٹہ میں پہلی بار انھوں نے یوتھ مشاعرہ بھی کیا۔
علی بابا سے ابتدائی ملاقاتیں یہیں ہوئیں۔ میں اردو پڑھ رہا تھا، وہ پہلے شاید سائیکالوجی اور پھر فارسی کی طرف آیا۔ شرافت عباس ناز صاحب کا لاڈلا شاگرد تھا۔ بل کہ یہ ساری ٹولی پروفیسر شرافت عباس، پروفیسر بیرم غوری اور صبا دشتیاری صاحب کی لاڈلی تھی۔ یہ سب اپنی کلاسز سے زیادہ اکثر انہی کے گرد پائے جاتے۔
ارشاد کے جو دوست پھر میرے بہت اچھے دوست بنے، ان میں علی بھی تھا۔ یہ وہ دوست تھے جنھوں نے دو چار برس والی سینارٹی کی کسی تکلف کا سبب نہ بننے دیا۔ پھر اسی زمانے میں دانیال آ گیا تھا۔ وہ بھی اس منڈلی کا محبوب بنا۔ عدن عدیم اور شیدا زیدی کی جوڑی بھی اسی زمانے میں سامنے آئی۔ یہ ہم سب کی بھرپور نوجوانی کے دن تھے۔ کوئٹہ میں تب شعر و ادب کی محفلیں آباد تھیں۔ آئے روز مشاعرے، کتابوں کی تقریبِ رونمائی، پذیرائی، سیمینار، مباحثے تواتر سے ہوتے رہتے تھے۔ یہ سب نوجوان نمایاں صف میں ہوتے تھے۔
علی بابا "سنگت" میں بھی لکھتا رہا مگر وہ کسی ایک جگہ جم کر رہنے والی مخلوق نہ تھا۔ نظریاتی بندھنوں سے بھی یہ نسل اکتائی ہوئی تھی۔ سو اس نے ہزارگی تنظیموں سمیت مرحوم راحت ملک کی تنظیم سے لے کر سیف الدین بوہرہ کی چوپال تک کو بارونق بنائے رکھا، مگر خود پہ کوئی لیبل لگانے سے گریزاں رہا۔ البتہ این جی او والا کام اسے بھا گیا اور ملازمت کے بعد بھی اس نے بیش تر وقت اسی میں گزارا۔
لو کے چکر میں میرج بھی اس نے خاصی تاخیر سے کی۔ اچھے خاصے پاپڑ بیلنے پڑے اسے۔ یار دوست مذاق بھی اڑاتے کہ اس کے چکر میں تم نے بڈھا ہو جانا ہے۔ مگر اس نے نہایت مستقل مزاجی دکھائی اور بالآخر خاتون کو رام کر لیا۔ ایک ہی بیٹا ہوا اسے اور کہتا تھا کہ مزید کوئی اولاد پیدا بھی نہیں کرنی۔
ہاں ایک کام اس نے تواتر سے کیا اور وہ ہے، شاعری۔ حالاں کہ کتاب اس کی ایک ہی شائع ہوئی، اُسی نوجوانی والے زمانے میں۔ دانیال نے ہی اس کا دیباچہ لکھا تھا۔ پھر کچھ کلام اس نے بیدل کا ترجمہ کیا اور اس کا کتابچہ چھاپا۔
عرصہ ہوا کہ ہماری کوئی مستقل ملاقاتیں نہ رہیں۔ خصوصاً ارشاد کے بعد تو اس کے یار دوست بھی بکھر ہی گئے۔ ہزاروں پر تو ایسا آسمان ٹوٹا کہ ایک عرصے تک مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن کی آبادی اپنے اپنے جزیروں میں محصور ہو کر رہ گئی۔ مگر علی سے یارانہ ایسا تھا کہ ہم مہینوں یا برسوں بعد بھی ملے تو گویا ابھی کل ہی ملے ہوں۔
اس کی حسِ مزاح اور برجستگی کمال کی تھی۔ تلخ ترین بات بھی وہ ہنس کر کرنے کا عادی تھا۔ آخری بار ہم اسی سال اسلام آباد میں عثمان بھائی کے لٹ خانے میں ملے۔ میں وہیں تھا، وہ این جی او کا کوئی پروگرام نمٹا کر دو چار دن فریش ہونے کی غرض سے وہاں آیا۔ ہم نے دو راتیں خوب گپیں ماریں، جوانی کی یادیں دہرائیں، کوئٹہ والوں کی خوب برائیاں کیں۔
دو روز قبل ہی کسی دوست نے پروفیسرز کے ایک گروپ میں اس کی علالت کی خبر شیئر کی۔ پتے کی پتھری اور آپریشن کا کوئی معاملہ تھا۔ مجھے اسی لمحے مولانا مودودی اور جوش صاحب والا فقرہ یاد آیا، سوچا اسے کال کرکے کہوں گا، زوئے خدا نے تمھیں اندر سے سنگسار کرنا شروع کر دیا ہے، اب تو باز آ جا!
مگر دو روز بعد ہی، اچانک کل رات اس کی مرگِ ناگہانی کی خبر آئی۔ دل پہ گویا ایک گھونسا سا آ لگا۔ جوانی کی منڈلی کا ایک اور ساتھی بے وقت اجل کا شکار ہوا۔ اُس منڈلی میں سب سے پہلے 2006 میں عدن عدیم بھرپور نوجوانی میں روڈ ایکسیڈنٹ میں چلا گیا۔ پھر آفتاب کو بیماری کھا گئی۔ ہمارے تخلیقی جینی اَس دانیال کو کینسر کے دیو نے جکڑ لیا۔ برسوں بعد آج ان کا یار علی بابا بھی انہی کی محفل میں چلا گیا۔
فلک پہ یاروں کی کیا محفل سجی ہوگی۔ کیا بھرپور "کوئٹہ وال مشاعرہ" ہوگا!
پیچھے ہم یہاں ان یاروں کی یاد میں سینہ کوبی کرتے رہیں گے۔ ان کی یاد میں ہمارے دل آتش دان اور آنکھیں ہنہ جھیل بنی رہیں گی۔

