Ache Ustad Ka Shagird
اچھے استاد کا شاگرد

2012ء میں میرا پہلا ٹرانسفر کوئٹہ سے وندر ہوا۔ یہ بھی ایک سزا ہی تھی۔ وندر میں اُن دنوں کالج تک نہ تھا، سکول کی بلڈنگ میں سیکنڈ ٹائم کلاسز ہوتیں۔ میں کوئٹہ سے حب جا کر ہوٹل میں رہتا۔ مہینے میں دو ہفتے ڈیوٹی کرتا۔ آدھی تنخواہ آنے جانے میں اٹھ جاتی۔
خیر، ہوا یہ کہ دو چار ماہ ٹرانسفر رکوانے کی کوشش کی، کچھ نہ بن سکا تو چاروناچار جانا پڑا۔ پرنسپل بہت شریف آدمی ملے، انہوں نے بیک ڈیٹ میں چار ماہ پرانی جوائننگ لے لی۔ اب مسئلہ چار پانچ ماہ کی تنخواہ وصولی کا تھا۔
وندر ڈسٹرکٹ بیلہ میں آتا ہے جس کا ضلعی ہیڈکوارٹر اُتھل ہے۔ بینک صرف ایک ہی نیشنل بینک کام کرتا تھا۔ میں سرکاری دفتروں اور سرکاری امور میں یکدم کورا آدمی۔ ہر دوسرے روز ڈاکیومنٹس لے کر اتھل کے اے جی آفس پہنچتا۔ صبح سے دوپہر تک ایک مولانا جو سارے دفتر کے انچارج تھے، بٹھائے رکھتے اور کوئی بہانہ کرکے واپس بھیج دیتے۔
مرحوم یوسف بلوچ حیات تھے، وہ وہاں سپورٹس ڈپارٹمنٹ میں تھے، لیکن میری طرح دفتری معاملات سے یکسر الگ تھلگ، سو ان کی آفر کے باوجود انہیں زحمت نہ دی۔ البتہ انہوں نے طریقہ بتا دیا کہ کام نکلوانا ہے تو آپ کو مولانا کی مٹھی گرم کرنی پڑے گی۔ میں نے زندگی میں کبھی یہ کام نہ کیا تھا۔ سخت سٹپٹایا کہ چلو پیسے دے بھی دوں مگر کیسے؟ اگلے بندے نے برا مان لیا تو؟ شکل اور کرتوت سے بھی پورے مولانا ہیں۔ مرحوم یوسف بلوچ نے ہمت بندھائی اور طریقہ بھی بتا دیا۔
اگلی بار میں اپنے ڈاکیومنٹس لے کر پہنچا اور ان کے بیچ میں ہی ہزار روپے کا نوٹ ڈرتے، جھجکتے، لرزتے رکھ دیا۔ مولانا صاحب نے حسبِ معمول کوئی لفٹ نہ کرائی۔ اتنے میں مجھے ہمارے ایک دوست حفیظ دشتی کی کال آئی۔ وہ اُن دنوں شاید پی ٹی وی کراچی سینٹر میں تھے۔ حال حوال پوچھا تو میں نے بھی بلاکم و کاست تازہ حال بتا دیا۔ اتفاق سے اے جی آفس اتھل کے ڈائریکٹر ان کے کوئی جاننے والے نکل آئے۔ انہوں نے انہیں کال کی۔ صاحب نے پانچ منٹ بعد ہی اپنے آفس بلا لیا۔
تھے یہ بھی کوئی مولانا ہی مگر نہایت شریف النفس بزرگوار۔ میرا تعارف پوچھا، چائے پلائی۔ اسی انچارج مولانا کو بلایا، میری فائل حوالے کی اور کہا ان کا چیک بنا کر لائیں۔ وہ مولانا جو مجھے تین چار بار بلاوجہ واپس لوٹا چکے تھے، فائل پکڑ کر رپٹ لیے۔ جب تک ہم نے چائے پی، چیک بن کر آ گیا۔ میرا رشوت میں جانے والا حق حلال کی کمائی کا ہزار روپیہ بھی بچ گیا۔ نیشنل بینک میں بھی اسی طرح مرحوم یوسف بلوچ کا ریفرنس کام آیا۔
آج ڈپٹی کمشنر بیلہ کا ایک نوٹیفکیشن دیکھا جس میں انہوں نے اے جی آفس اور نیشنل بینک اتھل کے عملے کو دفاتر میں کام کے سلسلے میں آنے والے اساتذہ سے خصوصی عزت و احترام کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے، تو اپنی خواری کے دن یاد آ گئے اور خیال آیا کہ لگتا ہے کسی اچھے استاد کا پڑھا ہوا بندہ ڈپٹی کمشنر لگا ہے یا اسے کوئی تجربہ، مشاہدہ ہے کہ ان دفتروں میں اساتذہ کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔
اس پہ اس ڈپٹی کمشنر کے لیے ایک ٹیچر کے دل سے تو دعا نکلی ہی، اس کے استاد کے لیے مگر دگنی دعا۔