Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hashmi
  4. Aandhiyan Zulm Ki Yun Chali Bagh Ujar Ke Reh Gaya

Aandhiyan Zulm Ki Yun Chali Bagh Ujar Ke Reh Gaya

آندھیاں ظلم کی یُوں چلیں باغ اجُڑ کے رہ گئے

اُمتِ مُسلمہ کے لئے ہر طرف بربادیء گلستاں کے اسباب پیدا کئے جا رہے ہیں عجیب و غریب بے بسی اور بے حسّی کا عالم ہے۔ ہر روز ایک نئی کربلا برپا ہوتی ہے۔ وادیِ کشمیر اور غزہ میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی سے نہتے بچوں کی چیخیں اور عورتوں کی آہ وزاریاں سننے والا کوئی نہیں۔ مودی اور اس کے رنگ میں رنگی سپریم کورٹ کے فیصلوں نے انسانیت کو شرما دِیا ہے۔ ہر طرف مسلمانوں کو گاجر، مولی کی طرح کاٹا جا رہا۔ یہ وہی اُمت ہے جس نے دُنیا کی رہنمائی کرنی تھی۔

غزہ1917 میں پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانی ترکوں نے غزہ پر قبضہ کر لیا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد لیگ آف نیشنز نے غزہ کو برطانوی حاکمیت میں دے دیا۔ 1948 تک یہ علاقہ برطانوی علمداری میں رہا۔ 1949 میں غزہ کو مصرکی حکمرانی میں دیے دیا گیا۔ 1967 میں اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیا۔ 1979 میں اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت اس علاقے کی محدود خود مختار حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا۔

ستمبر1993 میں اوسلو معاہدے کے تحت جو اسرائیل اور پی ایل اوکے درمیان ہوا، اسے فلسطین کا حصہ بنا دیا گیا۔ ایک آزاد برطانوی تحقیقی گروپ عراق باڈی کاؤنٹ، کے مطابق 2003 میں عراق پر حملے کے پہلے پورے سال میں امریکی افواج اور ان کے بین الاقوامی اتحادیوں کے ہاتھوں تقریباً 7,700 شہری مارے گئے تھے۔ اس کے مقابلے میں دو ماہ سے بھی کم عرصے میں غزہ میں صہیونی فورسز نے زیادہ خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔

براؤن یونیورسٹی کے جنگی منصوبے کے اخراجات کے شریک ڈائریکٹر پروفیسر نیٹا سی کرافورڈ کا کہنا ہے کہ ماضی کے ان جنگوں میں اگرچہ مجموعی طور پر مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، تاہم غزہ میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد "بہت کم وقت میں دیگر تنازعات سے زیادہ ہے"۔ اسرائیلی حکام نے عراق کے شہر موصل کی 9 ماہ کی لڑائی کا ذکر بہ طور موازنہ کیا تھا، لیکن اے پی کے مطابق اس تنازعے میں ہر طرف سے 9,000 سے 11,000 شہری مارے گئے تھے، جن میں داعش کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد بھی شامل ہیں، اس کے برعکس 2 ماہ سے بھی کم عرصے میں غزہ میں اتنی ہی تعداد میں خواتین اور بچوں کو مارا کیا گیا۔

یوکرین، افغانستان یا عراق جیسے تنازعات والے علاقوں کے مقابلے میں نہ صرف غزہ چھوٹا ہے، بلکہ اسرائیل اور مصر کی طرف سے اس علاقے کی سرحدیں بھی بند کر دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے غزہ کے شہریوں کے لیے بھاگنے کے محفوظ راستے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب کہ غزہ کی پٹی میں 60,000 سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔

دُنیا میں ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے سوائے خونِ مسلم کے جو اتنا ارزاں ہوگیا ہے کہ چاہے اُسے چراغوں میں جلا لیں، سڑکوں پر بہا دیں چھوٹے بچوں سے لیکر بزرگوں تک کا خون خاص طور پر ہندوستان میں مسلسل بہایا جا رہا ہے مقبوضہ کشمیر سے شروع ہو کر یہ آگ ہندوستان کے کونے کونے اور خاص طور پر ہندوستان کی شہ رگ دہلی تک پہنچ گئی ہے۔ جہاں پر مسجدوں کو آگ لگائی جا رہی ہے وہاں اذان دینے والوں اور امامت کرنے والوں سے لیکر نمازیوں کو کبھی آگ لگا کر کبھی تلواروں اور خنجروں سے وار کرکے بے بسی کے عالم میں اور سرکاری سرپرستی میں RSS کے غنڈے مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کو کبھی ویرانوں میں لے جا کر آنکھیں نکالی جاتی ہیں کبھی باپ کے سامنے بیٹے کو گولی مار کر اور کبھی اجتماعی طور پر بڑے مجمے پر گولیاں برسائی جاتی ہیں۔ مگر افسوس جلتے ہوئے گھروں میں مرتے ہوئے بچوں کی چیخوں کی آواز، مسجد کے موذن اور امام کی دِلخراش آہیں اور سڑکوں پر قتل ہونے والے مسلمانوں کی چیخیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کے الفاظ "یا اللہ اب تیرے سوا کوئی نہیں رہا"نے دل چھلنی کر دئیے۔

انسانی حقوق کے محافظ ہونے کے دعوے دار خواب خرگوش سو رہے۔ انسانیت اگر اپنی نفسانیت اور خواہشات نفسانی سے اوپر اٹھ کر غور کرے اور تعصب وعداوت کی پٹیوں کو آنکھوں سے اتا کر اسے دیکھے تو اسلام اور اس کی تعلیمات کتنی عظیم الشان ہے۔ اس کا پیغام کس قدر ہمہ گیر اور فلاح وسعادت کا ضامن ہے۔ اس کی قدرو قیمت ادیانِ عالم اور خود ساختہ مذاہب وافکار ونظریات کے درمیان کس قدر بڑھی ہوئی ہے۔

اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز فکر انسانوں تک دُنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے، دُنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں، قائدین ورہنماؤں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے" (النمل6)۔ یقینا ہم نے آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں، کہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے(الحجر 87)۔

ہمارا ایمان وایقان ہے کہ اسلام کا پیغام اس کا نظامِ حیات اس کا طریقہ کار، اسکی دعوت اس کی کتاب اور اس کا دستور وقانون ربانی ہے۔ اس کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کا ارادہ ہے، یہ کسی بادشاہ، کسی سربراہِ ملک، کسی امیر، کسی عوام، کسی پارلیمنٹ، کسی پارٹی، جماعت کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اس لئے اللہ کے بنائے ہوئے نظام وقانون میں کسی مخصوص قوم وملک اور کسی خاص جماعت ورنگ ونسل کے مفادات کی رعایت نہیں رکھی گئی بلکہ اس میں پورے عدل وانصاف کیساتھ ساری دُنیا کی قوموں اور ہر رنگ ونسل اور ہر زمانہ کے لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے۔

دُنیا کے نظام کو سنوار سکتا اور انسانیت کو بدامنی ولاقانونیت اور انتشار وخونریزی سے نجات دلا سکتا ہے۔ کرپشن کا خاتمہ اور ہر انسانیت سوز حملوں کو دفع کرسکتا ہے۔ چونکہ اسلام اور اس کی تعلیمات ونظام حیاتِ ربانی ہے، اس لئے اس میں نہ کسی سے بغض وعناد ہے اور نہ عصبیت وعداوت کہ اس سے امن وامان متاثر ہو، اور باہمی الفت ومحبت میں کمی آئے۔ اگر دُنیا امن چاہتی ہے تو دینِ اسلام سے بہترین کوئی پلیٹ فورم نہیں۔

Check Also

Technology Bhagwan Hai Sahib

By Mubashir Ali Zaidi