Ye Kitabon Se Ishq Ki Akhri Sadi Nahi
یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی نہیں
اک چائنیز کہاوت ہے کہ "اچھی کتابوں اور اچھے کپڑوں کے لئے جتنے پیسے خرچ کئے جائیں وہ کبھی ضائع نہیں ہوتے۔ " اچھے کپڑے آپکی شخصیت میں نکھار پیدا کرتے ہیں اور اچھی کتابیں آپکی سوچ سنوار کر آپ کا اپنا ایک الگ نقطئہ نظر قائم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا کیا متعارف ہوا کہ لوگ سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے۔ سوشل میڈیا نے اگرچہ ایک طرف ہر کسی کو یہ آزادی دی ہے کہ وہ اپنی بات اور اپنے خیالات دوسروں سے شیئر کرے دوسری طرف اس سے کافی نقصان بھی ہوا ہے۔
یہاں ہر کوئی قلمکار بنا بیٹھا ہے اور جس کے منہ میں جو آئے اپنی بات کر لیتا ہے۔ بنا سوچے سمجھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اس کا نقصان یہ ہوا کہ یہ کتاب کلچر کو کھا گیا۔ اب ہر کوئی لکھنے بیٹھ جاتا ہے اور پڑھنے والا کنفیوز ہے کہ وہ کیا پڑھے۔ بہت کم لوگ اچھی تحریریں منتخب کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اکثر اِدھر اُدھر بھٹک کر بنا کچھ سیکھے موبائل رکھ کر مایوس ہوتے ہیں یا صرف تصویریں دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
آج کل اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ یہ جملہ نظروں سے گزرتا ہے کہ "یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی"۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اب کتاب کلچر کسی حد تک معدوم ہو چکا ہے مگر زندہ قوموں کو اس بات کا احساس ہے کہ جب کوئی قوم کتاب سے دُور ہو تو وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ نہ ہی اپنی اور اپنے آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے کچھ کر سکتا ہے۔ کیونکہ کتابیں زندہ لوگوں کی طرح ہوتی ہیں جن میں ہر ایک کے پاس تجربات اور خیالات کا ایک امبار ہوتا ہے۔
قاری کے لئے ایک کتاب پڑھنا ایک زندگی گزارنے کے مترادف ہے۔ ایک شخص جب ایک زندگی میں ہزاروں زندگیوں کے تجربات سے روشناس ہو تو وہ خود میں ایک دنیا ہوتا ہے۔ موضوع سے ذرا ہٹ گئے اس لئے دوبارہ اپنی بات دہراتا ہوں کہ کتابوں کی اہمیت اسی طرح برقرار ہے اور آج بھی علم کے پیاسے اسی تعداد میں موجود ہیں۔ پچھلے دنوں بلوچستان کے ضلع تُربَت میں بلوچستان کے مشہور شاعر عطاءشاد کی یاد میں تین روزہ ادبی میلے کا انعقاد ہوا جس میں مختلف پبلشرز نے بک سٹالز لگائے تھے۔
انہی پبلشرز کے مطابق تین روزہ میلے میں پینتیس (35) لاکھ روپے کی کتابیں بک چکی ہیں۔ بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقے میں جہاں شرح خواندگی کی کمی کے باوجود جب ایک ڈسٹرکٹ میں بیک وقت اتنی کتابیں فروخت ہوں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ لوگ کتابوں سے دُور ہو گئے ہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ بلوچ نے اب کتاب کی طرف رجوع کیا ہے اور یہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ہمیں جاہل اور وحشی کہنے والوں کو جلد یہ احساس ہوگا کہ نہ ہم جاہل ہیں اور نہ وحشی۔ نہ کتابیں ہم سے گلہ کرتی ہیں کہ۔
کتابیں جھانکتی ہیں
بند الماریوں کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔
اب روز ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں گی اور بلوچستان بہت جلد علم کا ایک گہوارہ بن جائے گا۔