Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abdullah Shohaz/
  4. Sibt e Hassan Ko Parhna Chahiye

Sibt e Hassan Ko Parhna Chahiye

سبطِ حسن کو پڑھنا چاہیے

2012 میں جب میں نے رژن سکول بلیدہ بحیثیتِ استاد جوائن کیا تو میرے لئے یہ ادارہ ایک درسگاہ سے کم نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں ایک "الماری" کتابوں سے بھری پڑی تھی جس میں اکثر کتابیں سیاست اور ادب کے متعلق تھیں، یہ دونوں میرے پسندیدہ موضوعات تھے۔ اس لئے میں پہلے دن سے ہی کتابوں کو چھانتا رہا۔ جو کتاب پسند آئی اٹھاکر پڑھنا شروع کیا۔ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری، اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔

اس سے دو فائدے ہوئے، ایک تو کتابوں کی خرید پہ جو پیسے خرچ ہونے تھے وہ بچ گئے دوسرا یہ کہ میں نت نئے موضوعات سے آشنا ہوتا گیا۔ سکول میں پانچ سال کے دوران تقریباََ اس "الماری " (لائبریری اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ یہ باقاعدہ کوئی لائبریری نہیں تھی بلکہ اس میں سکول کے ڈائریکٹر ظہور صاحب کی ذاتی کتابیں پڑی تھیں) میں موجود جو کتابیں مجھے پسند آئیں میں نے سب پڑھ لئی۔

اسی الماری میں ایک کتاب ایسی تھی جسے کئی بار میں نے اٹھایا مگر اسے پڑھ نہ سکا۔ یہ کتاب پاکستان کے مشہور قلمکار سبطِ حسن کی تھی۔ سبطِ حسن کی دوسری چند کتابیں میں پڑھ چکا تھا مگر یہ کتاب پڑھنے سے قاصر رہا۔

کافی عرصہ گزرنے کے بعد ایک دن ایک دوست نے چند کتابیں DDF میں شیئر کیں۔ ان میں سبط صاحب کی کتاب "انقلابِ ایران" بھی شامل تھی۔ تو میں نے فوراََ کتاب ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھنا شروع کیا۔

کتاب کا موضوع 1979 کا انقلابِ ایران ہے۔ شروعاتی ابواب میں ایران کی قدیم تاریخ پہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ آگے چل کر انقلاب کے محرکات اور شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کے زوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ شاہ کے زمانے میں ایران میں امریکی اثر و رسوخ کیسے بڑھتا گیا اور کیسے شاہ اور شاہی خاندان کی عیاشیاں ایرانی معیشت کو لے ڈوبیں۔ شاہ نے ہر چند کہ معاملات کو قابو کرنے کے لئے ظلم و تشدد سے کام لیا مگر ناکام رہا۔

آج کل پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان نے اپنے معاملات پہ نظرِ ثانی نہیں کی تو اس ملک کا حال بھی وہی ہوگا جو ایران کا ہوا تھا کیونکہ ظلم و تشدّد کسی مسئلے کا حتمی حل نہیں ہے۔

شاہ کے بھاگ جانے اور ایران پر خمینی کی حکومتی سے ملک میں پھر سے جو بحران پیدا ہوا ان کا بھی ذکر کتاب میں موجود ہے۔ قلمکار نے بہترین انداز میں ایرانی معاشرے کے اندرونی تضادات کو بیان کیا ہے اور ایران کی پسماندگی کو عوامی جمہوری اداروں کی غیر فعالی سے منسوب کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر جمہوری ادارے فعال ہوجائیں اور اقتدار عوامی نمائندوں کو منقل کی جائے تو ایران پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے، کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے!

انقلابِ ایران پہ یہ ایک بہترین کتاب ہے!

Check Also

Batti On Karen

By Arif Anis Malik