Nanha Shehzada
ننھا شہزادہ
ادب کے کسی قاری نے جب تک انگریزی، فرانسیسی، روسی اور یونانی ادب کا مطالعہ نہیں کیا ہو تو وہ کوئی سنجیدہ قاری نہیں ہو سکتا۔ اتنا عرصہ ادب سے جڑے رہنے کے باوجود بھی جب کوئی پرانی کتاب پڑھنے کو ملتی ہے تو میں دنگ رہ جاتا ہوں کہ جو ادب مغرب میں پچاس ساٹھ سال پہلے تخلیق ہوا تھا ہم آج بھی اس سٹینڈر کا ادب تخلیق نہیں کر پائے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں وہ ایک الگ بحث ہے۔
کچھ دن پہلے ایک فرانسیسی ناول نگار آنتون دی سینٹ ایگزیوپیری کا ناول "ننھا شہزادہ" پڑھنے بیٹھ گیا تو میں حیران رہ گیا کہ جو کتاب 1946 میں چھپ چکی ہے، جس طرح اس ناول میں انسانی مزاج اور نفسیات کو بیان کیا گیا ہے ہم آج بھی ان موضوعات پہ بہت کم سوچتے ہیں۔
اس ناول میں دو بنیادی کردار ہیں ایک فائلٹ ہے اور دوسرا ایک ننھا شہزادہ ہے۔
کہانی شروع ہوتی ہے ایک چھ سال کے بچّے سے جو تصویریں بنانےکا شوقین ہے مگر والدین اسے جغرافیہ، ریاضی اور دوسری مضامین پڑھنے کا کہتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کون کیا بننا چاہتا ہے بلکہ ہم ہمیشہ اپنے بچّوں کو اسی راستے پر چلنے کا کہتے ہیں جو ہمیں پسند ہو۔ پھر اچانک سے کہانی میں ایک ننھے شہزادہ کی انٹری ہوتی ہے جو ایک چھوٹے سے سیارہ 612 (ب) پر رہتا ہے۔ اچانک سے وہ مختلف سیاروں کے دورے پر نکلتا ہے تاکہ اپنی علم میں اضافہ کر سکے۔ چھ مختلف سیاروں کا چکر لگا کر بالآخر زمین پر پہنچ جاتا ہے۔ زمین کے ساتھ کل سات سیارے ہوتے ہیں، ان میں ہر سیارے پر اس کی ملاقات ایک بندے سے ہوتی ہے جو دوسروں سے مختلف ہے۔
مختصراََ سات سیاروں پر رہنے والے لوگوں کی الگ نفسیات سے پتہ چلتا ہے کہ پوری دنیا میں سات قسم کے لوگ رہتے ہیں جن میں ہر ایک گروہ دوسرے سے مختلف ہے۔ انسانوں کی مجموعی نفسیات اور گروہی نفسیات کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاََ ایک سیارے پر اسکی ملاقات ایک بادشاہ سے ہوتی ہے تو بادشاہ اسے اپنی رعایا سمجھتا ہے، جبکہ کسی اور سیارے پر وہ ایک شیخی باز سے ملتا ہے تو وہ اسے اپنا پرستار سمجھتا ہے۔ ایک ہی چیز کو ہر بندہ اپنے انداز سے دیکھتا ہے، ضروری نہیں کہ جو میرے لیئے حقیقت ہے وہی آپ کی حقیقت ہو بلکہ ہرکسی کا اپنا ایک الگ پیراڈائم ہے۔
ناول کی زبان بہت سادہ ہے اور مکالمات ایسے ہیں کہ کوئی بچّہ پڑھے تو اسے اپنے انداز سے سمجھتا ہے جبکہ کوئی بڑا آدمی پڑھے تو اسے بھی انتہائی دلچسپ لگے گی۔ مثلاََ شہزادہ کو ایک پھول سے محبّت ہے اور اسے ایک بھیڑ بھی چاہیے جبکہ اس کے سیارے پر بمشکل ایک بندہ رہ سکتا ہے۔ مگر یہی پھول اسے پوری دنیا سے زیادہ عزیز ہے کیونکہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اور اس کا ماننا یہی ہے کہ انسان جتنی کوشش کر رہا ہے بس اسے ایک چیز کی تلاش ہے، خوشی۔ مگر وہ کہتا ہے "حالانکہ جس چیز کو وہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں وہ انہیں گلاب کے پھول یا تھوڑے سے پانی میں بھی ملتا ہے"۔ جب کوئی پیاسا ہو تو اس کے لئے سب سے بڑی خوشی ایک گھونٹ پانی حاصل کرنا ہے۔ اگر اس چیز کو ہم سمجھ لیں تو دنیا میں ہر بندہ ہنسی خوشی زندگی گزار سکتا ہے۔
الغرض پوری کہانی میں انسانی نفسیات کو مختلف انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے ناول کے فارم میں بڑی مہارت سے ڈھالا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی اہمیت ہمیشہ سے ہے اور برقرار رہے گی۔