Khatarnak Hathiyar (2)
خطرِناک ہتھیار (2)

عصرِ حاضر میں معلومات، اطلاعات، پیغامات، اظہارِ رائے کی آزادی اور انٹرٹینمنٹ کے تقریباًتمام ذرائع ابلاغ صرف ایک ٹچ سکرین موبائل بمعہ انٹرنیٹ نے اپنے اندر ضم کر لئے ہیں اور اس میں بھی عوام بالخصوص نوجوان طبقہ کا رجحان باقی تمام ذرائع ابلاغ کو چھوڑ کر فقط سوشل میڈیا پر ہے۔ شاید ہمیں ٹیکنالوجی کی جدت سے ذرائع ابلاغ کی تیزی سے بدلتی ہوئی نئی شکل سوشل میڈیا کا درست ادراک نہیں ہو سکا کیونکہ ماضی کے ذرائع ابلاغ میں بہت سی قباحتوں کے باوجود، کم ازکم یہ خوف تھا کہ ان کے سروں پر ایڈیٹر، سنسربورڈ، پیمرا اور سب سے بڑھ کر ان کی اپنی ساکھ کی صورت میں ہر وقت تلوار لٹکتی رہتی تھی جو انہیں مکمل تحقیق اور ثبوت کے ساتھ معلومات پہنچانے پر مجبور کرتی تھی۔ اب سوشل میڈیا اور عام عوام خصوصی طور پر نوجوانوں کے درمیان سے ایڈیٹر، سنسربورڈ، پیمرا اور ساکھ کوٹیکنالوجی نے نکال باہر کیا ہے سوشل میڈیا پر زیادہ تر معلومات ایک تو بغیر تحقیق، بغیر ثبوت اور بغیر تمیزکے 90% جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں دوسرا جن کے پاس بھی ٹچ موبائل ہے چاہے وہ تعلیم یافتہ ہے یا ناخواندہ معلومات سچ اور جھوٹ کی تمیز کیے بغیر سب تک برابر پہنچ رہیں ہیں۔
تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ماشااللہ اپنی پوری زندگی میں درسی کتب کے علاوہ کسی ادبی یا تاریخی کتاب کو غلطی سے بھی نہیں چھوا ہوتا وہ سب سوشل میڈیا سے موصول ہوئی معلومات، انٹرٹینمنٹ ویڈیوز بغیر تحقیق اور کسی بھی اخلاقی یا معاشرتی پہلو کو مدنظر رکھے بغیر آگے شیئر کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے "مومنوں اگر کوئی گنہگار تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے توخوب تحقیق کر لیا کرو ایسانہ ہوکہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے"۔
پھر یہی مواد ان کے کانوں اور آنکھوں کے ذریعے دن رات ان کے دماغ تک پہنچ کر ان کی ذہن سازی اور کردار سازی کر رہا ہے اب عوام کو کیا دکھانا ہے اور کس کو ایک ہی رات میں وائرل (مشہور) کرنا ہے یہ "دانشوروں" کے ہاتھوں سے نکل کر ان "سوشل میڈیا بریگیڈ"کے ہاتھ آگیا ہے جن کی مجموعی قابلیت فقط ایک عدد ٹچ موبائل ہے۔ اسی لئے تو اس صدی کو احمقوں کی پذیرائی کی صدی کہا جاتا ہے کیونکہ اب مقابلہ چینل کی ریٹنگ اور نوجوانوں کی تربیت میں سے کسی ایک چیز کو چننے میں ہے۔
ماضی میں نوجوانوں کے ذوق اور جنرل نالج کو پروان چڑھانے کیلئے علم کے سمندر مرحوم طارق عزیز کا مشہور زمانہ پروگرام "نیلام گھر" ہوتا تھا، پھر ماضی قریب میں اس ذوق کا معیار کم ہو کر مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی "رمضان ٹرانسمیشن" اور"انعام گھر" تک پہنچ گیا اور اب گرتے گرتے فہد مصطفی کے "جیتو پاکستان" پر آکر ٹھہر گیا ہے۔
ماضی میں نوجوانوں میں ظرافت کے طور پر یہ دو جملے بہت مشہور تھے پہلا جملہ علامہ اقبال کا "اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے" اور دوسرا منیر نیازی کا "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں" اور اب "کانپیں ٹانگ رہی ہیں" اور "پروگرام تو وڑ گیا" آج کے سوشل میڈیا کے نوجوانوں کا حسن انتخاب اور ذوق تہذیب حافی، علی ذریون، اختر لاوا، شیدَو وِیلا اور مو سیقی میں رَیپ اور چاہت فتح علی خاں ہیں۔
جس سیاسی پارٹی نے اس خطرِناک ہتھیار سوشل میڈیا کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ دی اور ساتھ ریاستی اور آئینی اداروں کی مدد بھی شامل حال رہی ماضی کے "گوئبلز" عصر حاضر کے سوشل میڈیا سیل بن گئے جو تھوڑے سچ اور زیادہ جھوٹ کی آمیزش میں بہترین پروپیگنڈا تشکیل دے کر "بیانیہ" بناتے اور ان سوشل میڈیا بریگیڈ کی مدد سے اس بیانیہ کو ٹاپ ٹرینڈ بنا دیتے ان کے بیانیہ کے مخالف کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا شریف اور سنجیدہ شخص آجائے چاہے وہ جتنا بھی طاقتور عہدہ کیوں نہ رکھتا ہو اس کی پگڑی اچھال دیتے ہیں۔ اسی لئے اب معاشرے سے سچ، اخلاق، برداشت، ادب اور حیا تیزی سے نایاب ہو رہے ہیں اور اس کی جگہ جھوٹ، بدتمیزی، عدم برداشت، انتہاپسندی اور بے حیائی تیزی سے پھیل رہی ہیں جس کی تازہ مثال پنجاب کے ایک مشہور نجی تعلیمی گروپ کی درسگاہ میں مبینہ طور پر ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کی سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی"فیک نیوز" پر نوجوانوں کا ردِعمل اور برطانیہ میں ایک سوشل میڈیا فیک نیوز پر مسلمانوں پر ہونے والے حملے اور ہنگامے! مگر یاد رکھیے گا یہی خطرِناک ہتھیار سوشل میڈیا! جو یہ اپنے مخالفین پر عرصہ دراز سے بڑی مکاری کے ساتھ استعمال کر رہیں ہیں عنقریب ان کے اپنے زوال کا باعث بنے گا "کیونکہ ازل سے قدرت کا یہ فطری اور اٹل قانون ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر آخری فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے"۔
قارئین کرام! صرف وطن عزیز ہی نہیں بلکہ دنیا بھی اس خطرِناک ہتھیار سوشل میڈیا کے زیرِ اثر ہے اس کی کلاسک مثال یوکرین ہے چند برس پہلے تک یوکرین ایک پرامن اور زراعت، انڈسٹری اور خدمات کے شعبے میں اپنی ایکسپورٹ بڑھا کر دن رات ترقی کی منازل طے کر رہا تھا لیکن سوشل میڈیا بریگیڈ نے ایک مسخرے "ولادی میرزیلنسکی" کو لیڈر بنا کر ملک کا صدر بنا دیا جس نے سوشل میڈیا بریگیڈ کے مقبول بیانیہ کے پریشر میں آکر"لڑا دیا ممولے کو شہباز سے" اور اب ملک کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد کرکے، ہزاروں قیمتی جانیں گنوا کر، لاکھوں افراد کو بے گھر کرکے اور اپنے ملک کے کچھ آزاد علاقے مخالف کے قبضے میں دلوا کر مذاکرات اور صلح کی بھیک مانگ رہا ہے۔
اسی طرح امریکہ اور انڈیا میں ٹرمپ اور مودی صرف سوشل میڈیا بریگیڈ کی انتہا پسند سوچ اور "پروپیگنڈا گوئبلز" کی طاقت سے یکے بعد دیگرے اقتدار تک پہنچ گئے ہیں وگرنہ کیا امریکہ جیسے سپر پاور اور ترقی یافتہ جمہوری ملک میں ایک غیر سنجیدہ، جس کے جنسی اور مالی کرپشن کے کئی سکینڈلز زبان زدِ عام ہوں اور اس پر امریکی سپریم کورٹ میں مقدمہ بھی چل رہا ہو یا بہت بڑی اقلیتی آبادی رکھنے والے اورخود کو جمہوریت کا چیمپیئن سمجھنے والے بھارت میں ایک انتہا پسند سوچ کا مالک جس نے اپنے وزارت اعلی کے دور میں اپنے ملک کی ایک بڑی اقلیت کا بے دردی سے قتل عام کروایا ہو اور اس کی شدت پسند ذہنیت سے اقلیت خود کو اور اپنی عبادت گاہوں کو غیر محفوظ سمجھتے ہوں کوئی ذی شعور انسان کیسے پورا ملک ان کے حوالے کر سکتا ہے۔ اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ معاشرے میں سوشل میڈیا کا پھیلایا ہوا "زہر" جو ذہنی سکون، دوستی اور رشتہ داری کو شدید متاثر کر رہا ہے اورشدت پسند سوچ مذہبی، مسلکی اور لسانی فسادات کا باعث بن رہی ہے کیا یہ کوئی بھی "خطرِناک ہتھیار" یا ایٹم بم کر سکتا تھا؟
(ختم شد)