Election 2024, Afwahon Ki Zad Mein
الیکشن 2024، افواہوں کی زد میں
سرد موسم، حالات سازگارہ نہ ہونے کا شکوہ، دہشت گردی تو کبھی لیول پلئنگ فیلڈ نہ ہونے کے شکوے شکایت، اور پھر سینیٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد کا منظور ہونا۔ الیکشن 2024 پر خطرات کے بادل تاحال منڈلا رہے ہیں۔ الیکشن کے التوا کے لیے سیاسی اکھاڑے میں جتنے منہ اتنی باتیں کی جا رہی ہے۔ کوئی سیکرٹری الیکشن کمیشن کے استعفے کو وجہ بتا کر الیکشن ملتوی ہونے کی خبر دے رہا ہے تو کوئی اس بات پر با ضد ہے کہ سینیٹ میں پیش کی جانے والی قراداد اور کورم پورا نہ ہونے کے باوجود قرارداد کا منظور ہو جانا ہے، اصل میں الیکشن کی تاخیر کی جانب پہلا قدم ہے۔
افواہوں اور وسوسوں کے بیچ سپریم کورٹ امید کی وہ واحد کرن ہے، جو الیکشن تاخیر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں چلنے والی سپریم کورٹ تہیہ کیے ہوئے کہ آندھی آئے یا طوفان الیکشن مقررہ تاریخ پر ہی ہونگے۔
گزشتہ دنوں سینیٹ سے ایک متنازعہ قرارداد منظور ہوئی، جس پر بعد میں تقریبا تمام جماعتیں ہی سراپا احتجاج تھی۔ اس دوران جمعیت علما اسلام اور اے این پی وہ دو سیاسی آوازیں تھی۔ جو ان قرارد پیش کرنے والے کی ہمنواہ نظر آئیں۔ مولانا فضل الرحمن کے مطابق سینٹ کی قرارداد ہمارے موقف کے مطابق آئی ہے۔ ایک بات بڑی واضح ہے کہ ہمیں الیکشن چاہیے۔ لیکن الیکشن کے ماحول بھی چاہے۔ ہمیں دھمکی دی جارہی ہے کہ جلسے میں کوئی آیا تو اپنی جان کا خود ذمہ دار ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو الیکشن کے انعقاد پر سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردانہ کاروئیوں کا درپیش ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان اور کے پی میں حالات ایسے نہیں کہ وہ الیکشن مہم کے لیے نکل سکے۔ حکومت کی جانب سے حالیہ دہشت گردی کے پیچھے افغانستان کے ہاتھ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن خود اسی سلسلے میں دورہ افغانستان پر موجود ہے۔ جہاں پر ان کی مختلف افغان رہنماوں سے ملاقاتیں جاری ہے۔ امید ہے کہ وہ ان ملاقاتوں میں دہشت گردی کے ان واقعات کے بارے میں بھی بات کریں گے۔
دوسری جانب بڑی سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے مطالبے کے برعکس رائے رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے آج میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ سینٹ کی قرارداد اپنی جگہ یہ اقوام متحدہ سے بھی قراردادا پاس کروا لیں تو بھی 8 فروری کو الیکشن ہوں گے۔ جسٹس فائز عیسی صاحب نے کہا ہے کہ پتھر پر لکھا ہوا ہے کہ 8 فروری کو الیکشن ہونگے گے۔ 3 یا 4 سینٹرز اٹھ کر کہتے ہیں کہ الیکشن ڈیلے کیا جائے کیا ان کی بات میں قانونی اور آئینی وزن ہے یا چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلے میں زیادہ قانونی اور آئینی وزن ہے۔
سینئر سیاستدان ظفر علی شاہ بھی دعا گو ہیں کہ الیکشن 8 فروری کو ہو جائے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ الیکشن کے آثار نہیں۔ ان کے مطابق جنہوں نے انتخابات ملتوی کرانے ہیں، وہ افغانستان جا کر بیٹھ گئے ہیں۔
دوسری جانب سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کا استعفیٰ بھی انتخابات کے التوا سے جوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے اور ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شائد الیکشن کمیشن کے اور بھی اہم رہنماوں کے استعفے ٹیبل پر موجود ہے جن کے باعث انتخابات کی راہ میں مشکلات پیدا ہونگی۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے اپنے استعفی میں طبیعت کی ناسازی کو وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میری صحت کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی اس لئے عہدہ چھوڑ دیا۔
ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق عمر حمید ایک ذہین اور محنتی آفیسر ہیں اور وہ بہت اچھے طریقے سے کمیشن کا کام کر رہے ہیں تاہم پچھلے کچھ دنوں سے ان کی صحت خراب تھی، اس سے قبل بھی وہ میڈیکل ریسٹ پر رہے ہیں، اگر صحت نے اجازت دی تو وہ جلد ہی اپنے فرائض منصبی سر انجام دیں گے۔ الیکشن کمیشن مکمل طور پر فعال ہے اور اس کے کام میں کسی قسم کی رکاوٹ یا رخنہ نہیں ہے۔