Judges Be Katehre Mein Laye Jayen
ججز بھی کٹہرے میں لائیں جائے
سپریم کورٹ کے جج جو اب سابق جج کے عہدے پر فائز ہو چکے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا استعفیٰ ایک ایسے وقت میں آیا ہے۔ جب ان کیخلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی سماعت جاری تھی۔ جس کیخلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لیکن سپریم کورٹ کے بینچ کی جانب سے بھی ان کی جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی تھی۔
اس کے علاوہ آج ہی ان کے دور میں خصوصی عدالت کے ذریعے پرویز مشرف غداری کیس ختم کرنے کے فیصلے کو بھی سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جس کو مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفیٰ سے جوڑا جا رہا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے اس فیصلےکو ختم کرکے سپریم کورٹ نے سابق جج کو ایک خاموش پیغام دیا تھا اور اس فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد ٹی وی اسکرینز پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفیٰ کی خبر نے نمایاں جگہ بنائی۔
آج پرویز مشرف کیس کی لمبی چوڑی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا، جو کچھ دیر بعد جاری کرتے ہوئے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف (مرحوم) کی خصوصی عدالت کی سزائے موت بحال کردی۔ عدالت نے کہا کہ کوشش کے باوجود پرویز مشرف کے قانونی ورثا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ عدالت نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کردی۔ عدالت نے پرویز مشرف غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق عدالتی کارروائی کے بارے میں پرویز مشرف کے ورثا کو مطلع کرنے کے لیے ان کے ملکی و غیر ملکی رہائشی پتوں پر نوٹس دیے گئے۔ اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی اشتہار دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عدالت کے سامنے دو سوالات تھے۔ کیا مرحوم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپیل سنی جا سکتی ہے، پہلا سوال۔ اگر سزائے موت برقرار رہتی ہے تو کیا مشرف کے قانونی ورثا مرحوم کو ملنے والی مراعات کے حقدار ہیں، دوسرا سوال۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ متعدد بار کوشش کے باوجود بھی مشرف کے ورثا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے سوائے اس کے کہ سزائے موت برقرار رکھیں۔ عدالت کے اس فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ آگیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے استعفے میں کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی کہ میں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج رہا، وہ حالات جو عوامی علم میں ہیں اور پبلک ریکارڈ پر ہیں، ایسے حالات میں میرے لیے بطور جج سپریم کورٹ عہدے پر برقرار رہنا ممکن نہیں، بطور جج سپریم کورٹ عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوایا، ایوان صدر کی جانب سے بھی استعفیٰ موصول ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ استعفے کے بعد جسٹس مظاہر نقوی اب پینشن اور دیگر مراعات کے حقدار ہوسکتے ہیں، اگر سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ پر ہٹاتی تو پینشن اور دیگر مراعات سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے۔ اسی لیےکہا جا رہا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے اپنے خلاف کیس لڑنے کی بجائے آسان راستہ اپنایا گیا اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا گیا۔ لیکن ان کے استعفیٰ دینے کے باوجود بھی ریفرنس کے پٹیشنرز اس کو چیلنج کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں۔
میاں داود ایڈوکیٹ نے آج ایک وڈیو پیغام جاری کیا ان کےمطابق کرپٹ ترین جج جسٹس مظاہر نقوی کا استعفی پوری قوم اور وکلاء کی جیت ہے تاہم ابھی منزل باقی ہے۔ جسٹس نقوی کا استعفی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائیگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کرپٹ جج جب رنگ ہاتھوں پکڑا جائے تو استعفی دے کر گھر چلا جائے اور عوام کے پیسوں پر پنشن لیکر عیاشی کرتا رہے۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے ٹویٹ کرتے ہوئے اس استعفیٰ کو ناکافی قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اثاثوں کی چھان بین سیاستدان کیطرح جج صاحب اور انکی آل اولاد سب کی ھونے چاہئیے۔ ترازو پکڑنے والے ہاتھ کا حساب آخرت میں تو اللہ کی صوابدید ہے۔ مگر دنیا میں نہیں کرینگے تو ہم سب برابر کے گناہ گار ہونگے۔
مظاہر علی اکبر نقوی کا اچانک استعفیٰ اس لیے بھی ایک بڑی خبر تھی کہ آج صبح دن کے آغاز پر ایسا کوئی شبہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ انہوں نے آج ہی اپنے خلاف جاری کیے گئے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا۔ جس میں انہوں نے اپنے لگے الزامات کو کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف معلومات لے سکتی ہے۔ لیکن کونسل جج کے خلاف کسی کی شکایت پرکارروائی نہیں کرسکتی۔
تفصیلی جواب میں کہا گیا ہےکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولز کی توہین کے مترادف ہیں، رولز کے مطابق کونسل کو معلومات دینے والے کا کارروائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل کی بطور پراسیکیوٹر تعیناتی پر بھی اعتراض اٹھایا اور کہا کہ کونسل میں ایک شکایت کنندہ پاکستان بارکونسل بھی ہے، اٹارنی جنرل شکایت کنندہ پاکستان بارکونسل کے چیئرمین ہیں اور بارکونسلز کی شکایات سیاسی اور پی ڈی ایم حکومت کی ایما پر دائر کی گئی ہیں۔
جسٹس مظاہر نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ پاکستان بارکی 21 فروری کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی، شہباز شریف سے ملاقات کے روز ہی پاکستان بار نے شکایت دائر کرنے کی قرارداد منظور کی۔ جسٹس مظاہر نے اپنے جواب میں کہا کہ لاہور کینٹ میں خریدا گیا گھر ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیا ہے، ایس ٹی جونزپارک والےگھر کی قیمت کا تخمینہ ڈی سی ریٹ کے مطابق لگایا گیا تھا، گوجرانوالہ میں خریدا گیا پلاٹ جج بننے سے پہلے کا ہے اور اثاثوں میں ظاہر ہے۔
جسٹس مظاہر کے مطابق اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور نہ ہی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا، زاہد رفیق نام کے شخص کو کوئی ریلیف دیا نہ ہی ان کے بزنس سے کوئی تعلق ہے، میرے بیٹوں کو اگر زاہد رفیق نے پلاٹ دیا ہے تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں، دونوں بیٹے وکیل اور2017 سے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے آرہے ہیں جب کہ جسٹس فائز کیس میں طے شدہ اصول ہے۔
بچوں کے معاملے پر کونسل کارروائی نہیں کرسکتی۔ جواب میں مزید کہا گیا ہےکہ پارک روڈ اسلام آباد کے پلاٹ کی ادائیگی اپنے سیلری اکاؤنٹ سے کی تھی۔ جب کہ الائیڈ پلازہ گوجرانوالہ سے کسی صورت کوئی تعلق نہیں ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایات خارج اور کارروائی ختم کرنے کی استدعا کی تھی۔