Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Khattak
  4. Awam Ke Siasi Jamaton Se Chand Sawalat

Awam Ke Siasi Jamaton Se Chand Sawalat

عوام کے سیاسی جماعتوں سے چند سوالات

پاکستان میں جیسے جیسے سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے اس سے کہیں تیز رفتاری سے پاکستان کی اکانومی نیچے آ رہی ہے۔ جس کی کسی کو کوئی فکر نہیں چاہے وہ حکومت میں ہے یا دو ماہ پہلے حکومت میں تھے۔ بس ان لوگوں سے اقتدار نہ جائے باقی جو مرضی حالات ہوں چاہے اکانومی زیرو پر کیوں نا آ جائے۔ یہ حالات پہلے بھی تھے مگر اس وقت عوام میں شعور زیادہ نہیں تھا شعور کا مطلب ان چیزوں میں توجہ نہیں تھی۔

ہر کوئی اپنے کام پر توجہ دے رہا تھا مگر اب عوام کو اس چیز کی فکر ہو گی کہ وہ دن رات کوشش کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں چاہے اپنے لیے کیوں نا ہو مگر اس میں کوئی قباحت نہیں جب لوگ خوشحال ہوں گے تو پاکستان خوشحال ہو گا۔ مگر اس کے برعکس سیاسی جماعتوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے اثاثے جو کئی سو گنا بڑھ رہے ہیں اور مزید بڑھیں گیں۔

ابھی یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ ان کے ہاتھ میں کونسی سونے کے انڈے دینے والی مرغی لگی ہے؟ ان کا پہلے کوئی ذاتی کاروبار نہیں ہوتا، جب وہ حکومت میں آتے ہیں صرف چھوٹا سا موقع ملنے کے بعد ان کی ملز، فیکٹریاں اس کے ساتھ سیکڑوں ایکڑ زمینوں کے مالک بن جاتے ہیں، لگتا ہے یہ چیز حکومت کے آنے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اور بتایا جاتا ہے کہ یہ ان کے نہیں ان کی اولاد کے ہیں مطلب کہ اتنے ذہین، پیدا ہوتے ہی بغیر کاروبار کے ملز بنا دیتے ہیں۔

اور بڑے ہو کر جب حکومت میں آتے ہیں جو ایک معمولی کیس ہے پاکستان میں تو کچھ نہیں کر پاتے۔ اس کا مطلب یہ لیں کہ اپنے لیے تو سب کچھ کر سکتے ہیں مگر پاکستان کے لیے نہیں۔ اور ان کو پاکستان کی عوام کی واقعی فکر ہے؟ جس کی وجہ سے حکومت میں آنا پڑتا ہے، تو آپ اپنے اثاثے پاکستان کے نام ہی کیوں نہیں کرتے تاکہ اس ملک کو درپیش مسائل کم ہو سکیں۔

ان تمام حالات کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے، پہلا یہ کہ تحریک انصاف کے کارکن کے طور پر دوسرا پی ڈی ایم کی نظر سے لیکن اگر ان تمام حالات کو ہم محب وطن پاکستانی کے طور پر یعنی تیسرے زاویے سے دیکھیں تو اس میں بہت سی تبدیلیاں ممکن ہیں اور بہت سے مسائل ہمیں نظر آئیں گے۔ ہمارے ہاں تقسیم اور نفرت سے لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے اور جان بوجھ کر منصوبہ بندی سے ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ کوئی بھی معقول بات نہ کی جا سکے۔

اگر آپ کسی ایک گروہ کی غلطی پر بات کریں گے تو آپ دوسرےگروہ میں شمار ہوں گے اور اگر آپ کسی ایک سیاسی جماعت کی پالیسی پر انگلی اٹھائیں گے تو آپ کو یہ سننے کو ملے گا کہ دوسرا بھی ایسا ہی ہے۔ یعنی لاشعوری طور پر یہ سمجھ لیا گیا کہ ان کا سیاسی لیڈر اچھا اور سچا ہے مگر کوئی سیاسی عصبیت سے بالا تر ہو کر بھی بات کی جا سکتی ہے۔

یہ ملک صرف چار سیاسی جماعتوں پر مشتمل نہیں بلکہ اگر ہم انتخابات کا ٹرن آؤٹ دیکھیں تو اس ملک میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کسی بھی سیاسی عصبیت کا حصہ نہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس رویے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ایک شہری کے طور پر ہمیں ان چند سوالات کے جوابات آج کی حکومت اور دو ماہ پہلے والی حکومت کی طرف سے ملنے چاہییں جو کہ عام شہری کا حق ہے۔

چند دن پہلے پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ ختم ہوا۔ اس کو روکنے کے لیے پولیس کا بھرپور کردار تھا۔ جمہوری نظام میں لانگ مارچ یا احتجاج عوام کا حق ہوتا ہے۔ پہلا سوال ہمارا پولیس کی اصطلاحات سے متعلق ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو پولیس کے رویے کی شکایات کرتے ہیں مگر حکومت میں آتے ہی پولیس سے وہی کام لینا شروع کر دیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اپنے دور اقتدار میں یہ پولیس کے نظام کی اصطلاح کیوں نہیں کرتے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاس آج پولیس موجود ہے جو 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی پر برطانیہ نے اپنی رعایا کو دبانے کے لیے بنائی ہوئی تھی۔ دوسرا سوال آل پاکستان مسلم لیگ ن کی پولیس کے بارے میں ہے، پولیس ہر دور میں تشدد اور وحشت سے کام لیتی ہے مگر نون لیگ کے دور میں حد کر دیتی ہے۔

گلو بٹ کے مناظر ہم نے دیکھے، چند دن پہلے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کی گاڑی پر جس طرح سے پولیس اور ان کے ساتھیوں نے مل کر حملہ کیا کیا شرمناک ہے۔ اس سے پولیس کلچر کے ساتھ ساتھ کوئی پرائیویٹ ملیشیا بھی بروئے کار آتی ہے جو لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس پر حکومت بالکل خاموش ہے کہیں انھوں نے مشکل وقت کے لیے کوئی فورس تو نہیں بنائی ہمیں بھی علم ہونا چاہیے۔

یہ کوئی معمولی سوال نہیں کیونکہ جب جعلی پولیس مقابلہ میں لوگوں کو ماروائے عدالت قتل کرنے والے پولیس افسران آج بھی نون لیگ کی قیادت کے سہرے کہہ رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی مجنوں اپنی لیلیٰ پر صدقے واری جا رہا ہو۔

تیسرا سوال عمران خان کے ہیلی کاپٹر کے متعلق ہے جس ہیلی کاپٹر پر وہ پشاور سے صوابی پہنچے کہ وہ کے پی کے حکومت کا ہے۔ عمران خان پہلے سیاسی جلسوں میں استعمال کر چکا ہے۔ کیا وفاقی حکومت کے خلاف اپنے لانگ مارچ میں صوبائی حکومت کے وسائل استعمال میں لا سکتی ہے؟ اس کے علاوہ مریم نواز کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں مگر کروڑوں روپے ان کی سیکیورٹی پر حکومت کیوں خرچ کر رہی ہے؟ حکومتوں کے وسائل عوام کی امانت ہوتی ہے کیا انہیں سیاسی جماعتوں کا مال غنیمت سمجھا جائے؟

چوتھا سوال پاکستان کی سیاسی اخلاقیات کے بارے میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہل سیاست کسی اصول اور ضابطے پر متفق ہو سکتے ہیں؟ جو انتخابات میں شکست کھاتا ہے وہ دھاندلی کے الزامات لگاتا ہے لیکن بامعنی انتخابات کی اصطلاحات کی کوئی بھی کوشش نہیں کرتا۔ جھگڑا اس بات کا نہیں کہ الیکشن شفاف نہیں بلکہ لڑائی اس بات کی ہے کہ اس دھاندلی سے فائدہ اٹھانے کا حق میرا ہے تیرا نہیں۔

پانچواں سوال عمران خان کے لانگ مارچ کے متعلق ہے کہ اس کا جواز کیا ہے؟ کیا انہیں اقتدار سے نکالا گیا؟ وہ تو آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے تھا۔ سازش کے تحت اتحادیوں کو الگ کیا گیا لیکن کسی سازش سے ان کو ملایا بھی گیا ہو گا عمران خان کے ساتھ۔ مطلب یہ کہ ایم کیو ایم عمران خان کا ساتھ دے تو نیک، پاک ورنہ برائیاں سامنے آنے لگتی مطلب جو ہمارے مفاد میں نہیں وہی حق پر نہیں۔

چھٹا سوال نئی حکومت وقت جو اپنے آپ کو تجربہ کار کہہ رہی تھی۔ مگر اگر آتے ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا ایک دم اور اس کا بوجھ عام عوام پر ڈالا گیا مگر حکومت نے اپنی مراعات میں کمی نہ کی۔ اپنے آپ کو سہولت دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور زیادہ تر اپنے کیسز سے جلد از جلد چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہی ہے۔

آخر میں سوال وہی کہ یہاں معاشی استحکام اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک سیاسی استحکام دیکھنے کو نہ ملے۔ حکومت کے آنے اور جانے کا کوئی پتہ نہیں چلتا ہر وقت بے یقینی کی سی کیفیت ہوتی ہے تو وہاں پر سرمایہ کاری بھی کوئی نہیں کرتا۔ باقی عام شہری کی زندگی بھی چند دن پہلے ہی دیکھ لیں کہ لانگ مارچ روکنے کے لئے کس طرح گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔

ایک ایک کارکن کا پولیس کو پتہ تھا جس کو انھوں نے رات کی تاریکیوں میں چارد اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کر کے گرفتار کیا۔ اگر اتنی توجہ پولیس جرائم پیشہ افراد کو پکڑنے پر کرے تو پاکستان جرائم سے پاک ہو سکتا ہے۔ کنٹینرز جو کہ معاشی سرگرمیوں کی علامت ہے آج خوف کی علامت بن گئے ہیں۔ اسلام آباد ریڈ زون میں ہر وقت کنٹینر لگے ہوئے ہوتے ہیں تو ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

خیر یہ چند سوالات ہیں اگر ہم سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سوچیں تو ان سوالات کی ایک لمبی لسٹ بن جاتی ہے۔

Check Also

Imran Khan Ki Rihai Deal Ya Dheel

By Sharif Chitrali