Thursday, 20 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Taxes, Real Estate Sector Aur Sarmaya Kari

Taxes, Real Estate Sector Aur Sarmaya Kari

ٹیکسسز، رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور سرمایہ کاری

رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ کو دیوار سے لگا کر اس پر ٹیکسسز کی ایسی دیوار چن دی گئی کہ جس سے مغلیہ دور کی یاد تازہ ہوگئی۔ بلا جواز اور بلا ضرورت ٹیکسز کی بھر مار نے حکومت خزانوں کا منہ کیا بھرنا تھا ہاں البتہ گزشتہ دو سال میں لاکھوں بے روزگار ہی نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں تعمیراتی کمپنیاں اور بڑے بڑے ہاوسنگ و کمرشل پراجیکٹس کو بھی ایسی بریک لگی کہ اب سرکار کی نظر عنایت ہی اسے دوبارہ فعال کر سکتی ہے۔

غیر متوازن نظام سے نہ صرف یہ سیکٹر بلکہ اس سے منسلک دو درجن انڈسٹریز بھی براہ راست ایسی متاثر کہ روبہ زوال۔ اب کیپیٹل گین ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، اسٹامپ ڈیوٹی کے علاوہ جائیداد منتقل کرانے پر دیگر ٹیکسسز کے پیچیدہ اور مہنگے نظام کی موجودگی میں سرمایہ کاروں کی رغبت کیسے ممکن۔

یہ درست کہ ٹیکسسز ریاستی نظام کے لیے ضروری مگر اس کے لیے حکمت عملی اور ٹیکسسز کے نظام کو آسان بنانے کی ضرورت تاکہ ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کی بجائے مختلف طبقات کو بھی ٹیکس نیٹ میں لا جا سکے۔ مگر اس کے لیے روایتی طریقوں اور حربوں سے نکل کر حکومت کو جرات مندانہ اقدام اٹھانا ہوں گے۔ مگر بدقسمتی یہ رہی کہ ہر دور میں کاروباری طبقات پر عرصہ حیات ہی تنگ کر دیا جاتا رہا۔

معلوم نہیں ہمارے ہاں سرمایہ کاری کا ماحول ساز گار کیوں نہیں اور ادارے کاروبار اور کاروباری افراد کو پھلتا بھولتا کیوں نہیں دیکھنا چاہتے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان میں ون ونڈو آپریشن صرف اعلان کی حد تک ہی محدود اور آج بھی نیا کاروبار رجسٹرڈ کرانے یا نئی صنعت لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف، حتی کہ بیرون ممالک کے سرمایہ دار جو حکومت کی دعوت پر آتے ہیں وہ بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں۔ اتنے مسائل کے انبار کے ساتھ کاروبار آسان ہے اور نہ بقا ممکن۔

حکومت ہو یا بیوروکریسی اپنی عیاشیاں اور کروفر ٹیکس در ٹیکس لگا کر جاری رکھنے کی خواہاں، آج تک کس حکومت نے اپنے اخراجات اور پروٹوکول کم کئے، ماسوائے مرحوم محمد خان جونیجو کے۔ قرض کی مے پی پی کر ھم اتنے بے سدھ ہو گئے کہ دیانت و امانت کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا اور سادگی تو ہمیں زہر لگتی ہے۔ جس ملک میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں ہوں وہاں سادگی کا تصور کیسا۔ ان مسائل پر بات کرنے اور لوٹ مار کے اس نظام کی اصلاح کے لیے عوام اراکین کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں مگر ماشا اللہ ہمارے اراکین اسمبلی کو مختلف شعبہ جات طبقات اور عام ادمی کی مشکلات کا اندازہ ہے اور نہ دلچسپی، کاروباری سیکٹر کی نمو کے لیے ان کے پاس تجاویز ہیں اور نہ ٹیکسسز کے پیچیدہ نظام کا کوئی حل۔

اسمبلی میں متوسط اور ایس ایم ایز بارے کبھی مباحثہ ہوا اور نہ بڑی صنتعوں کی مشکلات کے ازالے کے لیے تجاویز آئیں۔ ہر جماعت کے چنیدہ ممبران اسمبلیوں میں بولتے ہیں، اگر حکومت کی طرف سے ہوں تو اپوزیشن کو رگید کر اپنی قیادت کی داد طلب نگاہوں کے منتظر ہوتے ہیں اور اپوزیشن اراکان بدتہذیبی اتنی بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں کہ میڈیا کو بریکنگ نیوز میسر آتی ہے تو دوسری طرف قیادت انہیں سند وفاداری عطا کرتی ہے۔ ہاں حکومت و اپوزیشن میں اتفاق رائے ہوتا ہے مگر اپنی مراعات کے لیے، باقی معاشی مسائل یا ملکی ترقی پر یکجا ہونا ان پر حرام۔ یہ تو احوال ہیں ہماری اسمبلیوں کے۔

اب کوئی سنے، نہ سنے ہر سیکٹر اور شعبہ کو اپنی جنگ خود ہی لڑنا پڑتی ہے۔ یہ طبقات دیگر تنظیموں اور ہمارے ہاں کے رواج کے مطابق اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے احتجاج توڑ پھوڑ کر نہیں سکتے، سوائے بات چیت، سیمنار یا پریس کانفرنس، ایسی نحیف آواز ارباب اختیار تک کب پہنچتی ہے کہ جب ہر سو شور و غل اور ہنگامہ۔

ہمارے ہاں تو حکومتیں مخالفین کو زچ کرنے اور نااہلی کے باوجود اپنی حکومت کی بقا میں مدت پوری کرکے رخصت ہو جاتی ہیں اور وراثت میں مسائل کے انبار اگلی حکومت کے لیے چھوڑ جاتی ہیں۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حکومتیں تجاویز اور پالیسیز کی تیاری میں صنعت کاروں اور کاروباری طبقات کی جن پر معیشت کا انحصار اور جو اقتصادی ترقی کی ضامن کو اعتماد میں لیتی ہے اور نہ ان کے آرا کو پالیسیوں کا حصہ بنایا جاتا ہے بلکہ بیوروکریسی کی پیش کردہ آرا کو پی بجٹ کا حصہ بنایا جاتا ہے جو حقائق کے مطابق نہیں ہوتا۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ساتھ بھی یہی ہوا ان کے مسائل سنے بغیر ان کو دیوار سے لگایا گیا جس سے اوورسیز پاکستانیوں نے بھی جو اس شعبہ میں بلینز کی سرمایہ کاری کرتے تھے نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ تو یہ شعبہ دھڑام سے ایسا نیچے آیا کہ نقصان 35 سے 50 فی صد تک اور اب اس شعبہ سے جڑی لگ بھگ 30 سے زائد انڈسٹریز یا تو بند ہیں یا آخری سانسوں پر۔ جس سے ٹیکس وصولی کے اہداف بھی دھرے کے دھرے رہ گئے اور بدنامی الگ۔

یہ بھی درست کہ ہمارے ہاں ڈیلرز ہوں بڑی کمپنیاں، اکثریت ٹیکس دائرے میں آنا سے گریزاں، افراط و تفریط کے اس ماحول کو اعتدال پر لائے بغیر معیشت چلے گی نہ کاروبار۔ حد تو یہ کہ بڑی تعمیراتی کمپنیاں، سیمنٹ، سریا، بھتہ خشت، فٹنگز کے کاروبار سے وابستہ مختلف شعبہ جات جو روزانہ کی بنیاد پر کئی ملینز کا لین دین کرتے ہیں ٹیکس نیٹ سے باہر اور وہ ٹیکس وصولی کے اہل کاروں سے مل ملا کر یا دیگر طریقوں سے معاملات کرکے قومی خزانے کو ڈس رہے ہیں۔

رئیل اسٹیٹ شعبہ میں بلا وجہ سٹے آرڈر اور سال ہا سال تک کیسسز کو معرض التوا میں رکھنے کا سلسلہ ختم کئے بغیر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا نہ نئی سرمایہ کاری ممکن۔ شنید ہے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بحالی کے لیے پانچ کروڑ روپے تک سرمایہ کاری پر چھوٹ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کرنے کی تجاویز زیر غور مگر آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط۔ گین ٹیکس کی موجودہ شرح بھی انوسٹرز کے لیے وبال جان، اگر یہ تجاویز قابل عمل ہو جاتی ہیں تو نہ صرف مردہ سیکٹر کو نئی زندگی مل سکتی ہے بلکہ اس سے جڑی 30 سے زائد صنعتوں کا پہیہ بھی رواں ہو سکتا ہے۔ اپنا خیال ضرور رکھیے مگر پاکستان کا بھی!

Check Also

Aasap Ki Bandish

By Abid Mir