Khabrain o Tabsare Parhiye Aur Sar Dhaniye
خبریں و تبصرے پڑھیے اور سر دھنئیے

دو خبریں:
بھارت کے خلاف آپریشن میاں نواز شریف نے ڈیزائن کیا عظمی بخاری۔
بھارت کے خلاف جنگ میں فتح پائلٹس، عمران خان کی ٹویٹس اور سوشل میڈیا ٹیم کی مرہون منٹ ہے، پی ٹی آئی۔
بیانات کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس کی تفصیلات و جزئیات جاننے کی ٹھانی تا کہ گرما گرم کالم آپ تک بھی پہنچ سکے۔ مگر مسئلہ یہ کہ موکلات سے دوستی ہے اور نہ غیب دانی کا علم۔ اس لیے ایسے کسی ہنر مند کی ضرورت تھی جسے اندر کی خبر ہو، دروغ گوئی میں ماہر ہو اور بہتان تراشی میں یکتا۔ ایسےبنر مند سے رابطہ کے لیے مشکل ریاض کا عمل بتایا گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مراد پانے کے لیے ریاض کرنا پڑا۔ یہ محترم تھے شعبہ صحافت سے، طالع کی صحبت اور ڈالروں کی کشش صحافت کی تیسری جنس میں لے آئی۔ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں مگر عادت قبیحہ نہ گئی۔ موصوف اور انکے چاہنے سننے والوں کا سچ سے اتنا ہی لگاو جتنا مودی جی کا امن سے۔ معاملات طے ہونے پر انہوں نے نہ صرف اندر کی خبر بلکہ اس جنگی حکمت عملی کا بلیو پرنٹ تک چرا لانے کی حامی بھر لی۔
ہاں چوری سے یاد آیا کہ اس فن میں ہمارے بہت سے سیاسی راہنما خوب طاق اور اس کام میں انکے معاون رعونت بھرے افسران، جو چوری کے بعد سینہ زوری کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ خیر فی الوقت یہ موضوع نہیں، ابھی تو عوام جنگی حکمت عملی کی کہانی کے منتظر۔
فرضی نام "پاڈا خان" رکھ لیتے ہیں کے مطابق (اب اس سے اگے دروغ بر گردن راوی) دشمن کی جانب سے مسلسل چھڑا چھاڑی پر وڈے صاحب طیش میں تو تھے ہی اور پھر چھوٹے بھائی کی مغمونانہ صورت نے جنگی حکمت عملی خود ڈیزائن کرنے پر مائل کیا۔ فوراََ ڈیزائنر کو طلب کیا اور جنگی منصوبہ جات والا سافٹ وئیر کھولنے کا حکم دیا۔ حکم سن کر آپریٹر پہلے تو ہڑبڑایا مگر پاس بیٹھے سیکرٹری نے آنکھ دبائی تو فوراََ فوٹو شاپ کھول کر منصوبہ بندی، جی ہاں جنگی منصوبہ بندی۔ مجھے علم ہے کہ اکثر کا شرارتی دماغ اور منصوبہ بندی کی طرف نکلنے کو ہے۔
منصوبہ بندی کا پہلا مرحلہ مورال کی بلندی تھا جسے خاموشی سے بلند کر دیا گیا۔ پھر سرحدوں کو محفوظ بنانا، سو اس کے لیے بھاری توہوں کو مختلف مقامات پر نصب کروانے دور اور نزدیک کے فاصلے کے حساب سے دھانوں کی پوزیشنز ترتیب دلوائیں گئیں۔
اب فضائی حدود کی حفاظت کا کٹھن مرحلہ سر پہ تھا۔ اتنی بلندی اور پھر 70 سے 90 ناٹک میل دوری تک سے دشمن کے جہاز تباہ کرانا کوئی آسان نہ تھا۔ پاڈا خان کے مطابق اس کے لیے صاحب خود زاویہ بدل بدل کر میزائل داغنے کی پوزیشن ڈیزائن کروانے لگے۔ راوی کے مطابق اس دوران ایک فائر چل بھی گیا مگر خالی ہونے کے باعث نقصان نہ ہوا۔ ادھر ایک خاتون کی بار بار دروازے سے جھانکا تانکی کرتے پائی گئیں۔ مگر مخل ہونے کی ہمت نہ کی۔
فائرنگ کب، کیسے اور کس پر، سب جنگی منصوبہ بندی میں درج کروانے کے بعد علی الصبح صاحب پرسکون ہوئے تو نہاری پائے طلب کیے۔ سیکرٹری کو فائل متعلقہ شخصیت کے حوالے کرنے کا حکم ملا۔ جنگ حکمت عملی کی پوری فائل بمعہ پرنٹ انہیں سونپی گئی تو خاتون کی خوشی دیدنی تھی عینک صاف کیے بغیر فائل دیکھی اور یہ جا وہ جا، نامعلوم مقام کی طرف۔
جنگی حکمت عملی تو تھی تیار مگر اب ضرورت تھی ایسے تیس مار خان کی جو اس جنگی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہو۔
کسی شرارتی نے راولپنڈی کا پتہ بتایا تو ٹیم نے علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا مگر گوہر نایاب ہاتھ نہ آیا آخر اہک باخبر نے مطلوبہ خصوصیات کے حامل کی معروف جیل میں موجودگی بتائی۔
بائیو گرافی چیک کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ صاحب ہیں تو بمباری کے زبردست ماہر، مگر بسا اوقات ان کا خودکار ریڈار دوست دشمن کی تمیز نہیں کر پاتا۔
اس پہ ٹیم میں تشویش کی لہر کا دوڑنا قدرتی امر، مگر اس کا حل مجوزہ حکمت عملی کو تھوڑا بہت رد و بدل کرکے نکالا گیا کہ دستیاب واحد نابغہ روزگار کے سافٹ وئیر کی تبدیلی ناممکن تھی۔
دیکھنے والے نے یہ بھی بتایا کہ رات گئے ملاقات میں جب انہیں بھارتی حملے کا بتایا گیا تو انہوں نے فوراََ سجدہ شکر ادا کیا۔ جس پر ٹیم کے اراکین کے دلوں میں شکوک و شبہات اور چہرے متغیر ہوئے مگر مرشد نے بھی ان واحد میں یہ سب بھانپ کر تشفی کے لیے سبب بیان کر دیا کہ اولا شکر اس کا کہ طویل مدت بعد دل کی مراد پوری ہوئی جو کام احتجاج نہ کر سکا وہ دشمن کے حملے نے کر دیا کہ ٹیم اراکین سے ملاقات ہوئی جس کی مدتوں سے آرزو۔
دوئم شکر اس پر کہ اب بھی ملک و قوم کی کسی نہ کسی خدمت کے قابل۔
ممبران جواب سن کر جھینپ سے گئے اور دل ہی دل میں قائد کی اعلی ظرفی کی داد دی۔ قائد اول کی ترتیب دی گئی جنگی حکمت عملی قائد ثانی کے سامنے تھی۔
قائد کی سپاہ کے مطابق جنگی تاریخ کا انوکھا واقع رونما ہونے جا رہا تھا اور شاید یہ پہلا اور آخری معرکہ کہ جس میں تنصیبات (عسکری و نظریاتی) کو گولہ بارود کے بجائے ٹویٹس اور سوشل میڈیا یلغار سے تباہ کرنا تھا۔
قائد ثانی نے منصوبہ سمجھنے کے بعد طویل اور رقت آمیز دعا کرائی کہ ان کے علاوہ تمام کی آنکھیں پرنم تھیں۔
اب مرحلہ اہداف پر داغنے کا تھا۔ جدید ترین مشین قائد (سیل فون) کے ہاتھ میں تھمائی گئی اور انکی آنکھیں بند اور انگلیاں ماہر۔۔ باز کی طرح اس پر چلنے لگیں چند ہی لمحوں میں پہلی ٹویٹ لانچنگ پیڈ پر سے داغنے کے لیے تیار جسے دھڑکتے دلوں سے فائر کیا گیا۔ پاڈا خان کے مطابق 20 سیکنڈ کے مختصر مگر صبر آزما مرحلہ کے بعد دھماکوں کی آواز سنائی دی تو کمرہ نعروں سے گونج اٹھا۔ چند لمحوں بعد میزائل ذخیرہ تباہی کی تصدیقی خبر ملی۔ مورال بلند ہوا تو اگلی ٹویٹس پر طیارے گرے تو پھر باری آئی 1.5 ملین ڈالر کے دفاعی نظام کی اس پر بھاری اور زہر آلود ٹویٹ کا حربہ آزمایا گیا جو کامیاب رہا۔
یاد رہے کہ اس دوران دفاعی ادارے دشمن کی توجہ بٹاتے رہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور اپنی اس ٹیکنالوجی کو خفیہ رکھنے کے لیے پاک فضائیہ کے شاہین فضا میں مسلسل گشت کرتے رہے اور سرحدوں پر توہیں ٹھک ٹھک کرتی رہیں۔
چند ٹویٹس کے بعد سافٹ وئیر میں خرابی کا آ جانا معمولی بات اور اس نے چند میزائل سرحد کے اس پار ہی گرائے ہی تھے کہ جنگ بندی کا الارم بج اٹھا اور ہم بڑے نقصان سے بچ گئے۔
ادھر قائد کی ٹویٹس کے بعد سپاہ کی سرحد کے آر پار بمباری نے دوست دشمن سبھی کے طبق روشن کرنا شروع کیے۔ جسے آپریشن ردالفساد شروع کرکے روکا جانے لگا ہے۔
پوری دنیا کے نامعلوم ٹیکنالوجی سے تباہی کے مناظر پر دنگ رہ گئی اور طاقتور ممالک کی فون کالز پر آپریشن قبل از وقت روکنا پڑ گیا کہ دباؤ برداشت سے زیادہ ہونے لگا تھا۔
آپریشن مکمل ہوا اور ٹیم کے پاس اب وہاں رکنے کا کوئی جواز نہ تھا فوراََ حکمت عملی سمیٹی اور یہ جا وہ جا۔ ناقدروں نے شکریہ کہنے کی زحمت بھی نہ کی اور قائد کو حیران و ویران چھوڑ کر واپس لوٹ گئے۔
آنکھ کھلی تو جنگ ختم اور فاتح اور مفتوح کا فیصلہ بھی ہو چکا تھا۔ سجدہ شکر ادا کیا اور ہر اس کے لیے دعا کہ جس نے جہاں جہاں اور جس بھی انداز سے وطن سے وفاداری نبھائی۔
پاکستان پائندہ باد

