Jalalat e Farooqi Aur Azmat Ayubi Ka Toot-ta Bharam
جلالت فاروقی اور عظمت ایوبی کا ٹوٹتا بھرم

طائف سے اٹھو مصر کے بازار سے نکلو
آپس میں تعصب کی شب تار سے نکلو
مدہوشی کی اب وادی پرخار سے نکلو
قبلہ (القدس) کے لیے قبلہ کی دیوار سے نکلو
ایوبی کی عظمت کا بھرم ٹوٹ رہا ہے
فاروقی جلالت کا بھرم ٹوٹ رہا ہے
خون اہل غزہ کا بہہ رہا ہے اور ندامت کا پسینہ عالمی دنیا کے ماتھے پر، مگر میری دانست میں ندامت بھی باہمت و باحمیت لوگوں اور قوموں کا خاصہ، اہل غزہ پہ مظالم میں سانجھے داری، مردہ ضمیری اور بے حسی نے تو اب ہمارے لیے شرمندگی میں بھی حصہ نہیں چھوڑا۔ ہلاکو خان و چنگیز کی روحیں بھی اسرائیل کے سامنے سر جھکائے کہ صیہونی دہشت گردوں نے جیتے جی سات ارب انسانوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ و او آئی سی کے سامنے بربریت کو مات دیکر ثابت کیا کہ دنیا صرف طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے اور فیصلہ سازی کا اختیار بھی صرف طاقتوروں کو ہی۔
مظلوم کے حصہ میں رونا دھونا اور غم گساری کے چند الفاظ۔ مگر مشکل یہ کہ اگر اہل غزہ کے لیے اب مذمت، افسوس کرب اور تاسف کے سبھی الفاظ اپنے معانی کھو چکے تو امت اپنا مفہوم اور امت مسلمہ اپنا وقار۔ ظالمو عسکری یلغار نہ سہی، کم از کم اخلاقی سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ تو کیا جا سکتا تھا مگر کئی مسلم ممالک بغیر کسی شرمندگی کے آج بھی اسرائیل کے ساتھ روابط کے رشتہ میں پروئے ہوئے ہیں اور کچھ خفیہ عہد و پیماں کئے ہوئے ہیں۔ حقیقت تو یہ کہ غزہ کی حیثیت اس متنازعہ پلاٹ کی مانند کہ جس پر رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے عالمی ٹائیکونز نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور اسے فری اکنامک زون اور اس خطے کا سب سے بڑا اور عالی شان تجارتی مرکز چاہتے ہیں اور کئی مسلم ممالک بھی اہل غزہ کی منتقلی اور انکی از سر نو آباد کاری کے فارمولہ میں خاموش حصہ دار۔
مشرق وسطی میں ایک مسلم ملک پر کفر تاریخ انسانی کے بدترین مظالم ڈھا رہا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کا عالمی و روحانی عظیم اجتماع پوری آب و تاب سے جاری۔ لاکھوں فرزندان توحید حرم کی مقدس وادیوں میں اپنی جبینیں اللہ کے حضور جھکائیں گے۔ خطبہ حج ہوگا، شیطان کو کنکریاں بھی ماری جائیں گی اور بخشش کی دعائیں بھی۔ سب افضل مگر مضحکہ خیز بات جو ہونی ہے کہ طواف و حج کے اس ہنگامہ میں امت مسلمہ کے اتحاد، ظالم کی بربادی اور مسلمانوں کی آبادی کی مناجات جو اب تک نامقبول۔
مگر یہ سوال رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے کہ پیاس سے بلکتے اور لہو رستے غزہ کے بچے اور زخمیوں کی بے بس آہیں عرش الہی کو جھنجھوڑ رہیں ہیں تو ایسے میں لاکھوں کی دعائیں اور صحن کعبہ میں صدائیں کیونکر مقبولیت کے دروازے کھولیں گی؟ فتووں کا ڈر اپنی جگہ اور ملامت کا بھی خوف۔ اس کے باوجود تمام اہل ایمان سے بصد احترام کہ امت کا یہ عظیم اجتماع بھی اگر ناجائز ریاست اسرائیل کے وجود کو کھٹکتا نہیں تو پھر جان لیجیے کہ یہ سب "ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا، کند ہو کے رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام" کا مصداق ہی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو تو چھوڑیئے، اقوام متحدہ کو بھی نذر آتش کیجیے اور او آئی سی پر بھی ماتم۔ سبھی ملکر کم از کم انہیں آسان موت کا سامان تو فراہم کر دیں۔ اسی دھرتی پر کہیں آب زم زم کے مزے تو کہیں ہزاروں لاکھوں دو گھونٹ کو ترس رہے ہیں، کہیں یخ بستہ محلات اور آرام و آسائش کے تمام اہتمام تو اہل غزہ کو چلچلاتی دھوپ میں خیمے کا سائیاں تک میسر نہیں، معمولی تکلیف کا علاج لندن اور نیویارک کے مہنگے و جدید ترین ہسپتالوں میں تو کہیں آتش و آہن کے ہزاروں زخمیوں کو مرہم میسر ہے اور نہ پٹی کے لیے کپڑا، امت کے دستر خوان انواح واقسام کے کھانوں اور پھلوں سے مزین تو غزہ کے یتیم بچے گھاس اور پتے کھا کر جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی ناکام کوشش میں مصروف۔
ان حالات میں ہماری عبادات مقبول ہوتی ہیں یا نہیں معلوم نہیں مگر احساس اور انسانیت کی کتاب کا فتوی واضح کہ ھم سب اہل غزہ کے مجرم! حج کی سعادت والوں کو مبارک اور اہتمام و انصرام کرنے والوں کو آفریں مگر کیا اخوت اسی کا نام، اسلاف کی روایات یہی تھیں اور اسلام کا درس۔ راہبروں کو امور سلطنت، حاجیوں کو طواف و حج اور امت کو رکوع و سجود سے فرصت ملی تو سوچنا بنتا ہے کیا اخوت اب اسی کا نام رہ گیا
عہد حاضر میں اخوت کا تصور ہے مگر
تذکروں میں، کاغذوں پر راہبروں کے درمیاں
اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں 60 ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات اور 64 ہزار شہادتیں جن میں 18 ہزار بچے اور 900 سے زائد شیرخوار۔ پانچ ہزار خاندان ایسے کہ جن کا صرف ایک فرد زندہ۔ 42000 بچے یتیم اور 14 ہزار خواتین بیوہ ہو چکیں۔ 12 ہزار کینسر اور 35 ہزار طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث موت کے منتظر۔ روئے زمین پر غزہ ایسی بستی کہ جہاں دفن کے لیے زمین کم اور دفنانے کے لیے افراد نہیں۔ بربریت کی اس داستان کو دیکھ اور سن کر بھی عالمی ضمیر جاگا اور نہ امت مسلمہ کا۔ آئے روز مذمت اور ناجائز ریاست سے حملے بند کرنے کی اپیلیں جرم ضعیفی کی سزا ہی تو ہے۔
اہل غزہ نے تو ذی الحجہ سے قبل ہی قربانی پیش کر دی مگر اب بھی ڈیڑھ ارب مسلمان اپنی خاموشی اور بے حمیتی سے اہل غزہ سے مزید قربانی کے متقاضی۔ سنت ابراہیمی میں تو انہوں نے جگر گوشوں کی قربانی کی اب اللہ کے حضور ھم ریاکاروں اور بے حسوں کی قربانی کیسے مقبول ہوگی؟ یہ سوالات پریشان کرنے اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تو نہیں کہ اس جرم میں ھم سب شریک۔ غزہ کو قبرستان اور کھنڈرات کا ڈھیر بنوانے کے بعد اب امن مذاکرات۔ مگر کس سے کہ مذاکرات تو زندوں سے ہوتے ہیں جبکہ غزہ تو لاشوں کا گھر۔
5.7 ارب بے حس انسانوں میں تاریخ انسانی نے اتنی بربریت پہلے کبھی نہ دیکھی۔ غزہ کا نوحہ سننے والوں میں وہ ممالک بھی شامل جو مسلم دنیا کے ٹھیکیدار اور 60 ساٹھ ملین ڈالرز کے تحفے قاتلوں کے سرپرست کو دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ مگر افسوس ناتواں امت اب بھی صیہونیت کے پنچوں میں جکڑی فرنگی کردار کی منتظر!
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے (فلسطین) وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے

