Wednesday, 16 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Behisson Ki Basti Se

Behisson Ki Basti Se

بے حسوں کی بستی سے

گذشتہ کچھ عرصہ میں اس کرہ ارض پر اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے دو غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ ایک طرف بے حس انسانوں کی بستیوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی تو دوسری طرف قاتلوں اور مقتولوں کی دو نئی بستیاں بھی آباد ہوئیں۔ راقم کو معاشرتی تقسیم کی جرات ہرگز نہ ہوتی اگر بے رحمانہ قتل عام کا دورانیہ اتنا طویل نہ ہو چکا ہوتا کہ جس نے ہلاکو و چنگیز کو بھی اس وصف میں بن گوریان کی آل اولاد سے کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ مگر اول دن سے ہمارا المیہ یہ کہ ہم مرض کی نوعیت کو سمجھ سکے اور اس کے شافی علاج کی سعی۔

ہم تو ہیں بس جذباتی نعروں اور دعووں کے اسیر۔ کئی ہزار میل دور کے کشت و خون کو ہم اپنی دھرتی پر سجا لیتے ہیں اور ہر بار اسے حق و باطل کا معرکے قرار دینے میں کبھی عار محسوس کی اور نہ شرمندگی۔ ہمارے ہاں اب بھی کچھ جماعتیں احتجاج کے نام پر میدان گرمانے کو تیار کہ جس سے نہ صرف اپنے ہی ملک کی املاک کا نقصان بلکہ نہ جانے ان جنونی مظاہرین کے ہاتھوں کتنے قانون نافذ کرنے والے مارے جائیں اور کتنے مظاہرین ان مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جنونیت کی بھینٹ چڑھیں۔

مقبولیت کے حریصوں سے کوئی پوچھے کہ پرتشدد مظاہروں سے امریکہ کا کیا جاتا ہے اور اسرائیل کا کیا بگڑتا ہے۔ سوائے اس کے کہ ہمارے ہاں ماحول کشیدہ اور عوام بالخصوص اسلام آباد و راولپنڈی کے باسی مشقت کی چکی میں پستے ہیں۔ احتجاج کے نام پر اپنے ہی ملک کے نقصان کے علاوہ ہمارے دامن میں اور ہے ہی کیا؟

کیا ہی اچھا ہو کہ احتجاج کے دن کسی کو کچھ دینے کی بجائے غیر ممالک سے امن مسلم ممالک سے حمیت اور اپنے حکمرانوں سے بائیکاٹ کی کبھی نہ ملنے والی بھیک مانگنے کی بجائے اپنی اصلاح کی سعی کر لیں۔ سچ بولنے کا عہد کرکے، اپنی مٹی سے وفا اور کرپشن (ذہنی و مالی) سے توبہ کا۔ ہاں پھر اس کے بعد ڈھنگ کے مظاہرے بھی بار آور ثابت ہو سکتے ہیں اور دنیا ہماری آواز پہ کان بھی دھرے گی۔ مگر اپنی اصلاح! ناممکن۔

شہرت اور ناموری کے پجاری ان سروں کہ جن میں ہمہ وقت بے ڈھنگے احتجاج کا بھوت سوار رہتا ہے کو کوئی اہل فکر و دانش سمجھائے کہ محترم ان طریقوں سے آپ گزشتہ 70 سالوں سے بھارتی مظالم رکوا سکے نہ اسرائیلی۔ ہاں بدلے میں آپ کے کارکنان کی اموات کہ جن کا اب نوحہ کرنے والا بھی کوئی نہیں۔

حضور والا بصد احترام عرض ہے کہ آپ نے ان درندوں کو روکنا ہے تو سڑکوں اور سفارت خانوں پر یلغار کی بجائے درسگاہوں دانش کدوں اور مساجد کا رخ کیجئے کہ ہمیں ایسے معیشت دانوں کی ضرورت ہے جو ہماری اقتصادی بدحالی کو خوشحالی میں بدل سکیں۔ ایسے مدبر درکار جو قوم کے دل و دماغ فہم و دانش کے نور سے منور کر سکیں ایسے ہنر مندوں کی ضرورت جو مسلم دنیا کو ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری دلوا سکیں اور ایسے سکالرز پیدا کرنے ہیں جو تفرقہ و انتشار کی بجائے امت کو جسد واحد بنانے کی سعی کر سکیں۔ پھر اس سے بالغ نظر جرات مند قیادت کی دستیابی ممکن جو کردار اخلاق فراست و دانش کے پیکر اور جن میں عوام کو متحد اسے قوم اور ان میں قومیت کا جذبہ بیدار کرنے کی صلاحیت۔ اس کے بغیر سب رونا دھونا اور بے بسی کے نعرے اس سے تو مظلوم فلسطینی و کشمیری بھی عشروں سے گزر رہے ہیں۔

وسائل سے مالا مال ممالک کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ حضور بڑے محلات اور عیاشی کے اڈوں میں ہماری بقا ہے اور نہ عزت۔ ایسی درسگاہوں کی ضرورت جہاں غریب اور پس ماندہ مسلم ممالک کے ذہین نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیکر ایٹمی صلاحیتوں میں مہارت دیکر دنیا پر برتری ثابت کرائی جا سکے۔ ابھی نہ معیشت آپ کے قبضہ میں نہ تجارت۔ دنیا بھر کے جس شاپنگ مال میں چلے جائیں شرمندگی اور ندامت کے ساتھ یہودی و مغربی مصنوعات ہمارا سواگت کریں گی۔ دنیا بھر کے معروف جرائد و ٹیلی ویڑن چینلز اور سوشل میڈیا کی تمام معروف ایپس انکی ملکیت۔ طب کے میدان میں انسانیت انکی مقروض۔ جدید ترین عسکری ذرائع انکے پاس اور اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے خلاف سب متحد و یک جا اور ہمارے پاس جذباتی نعرے اور پرتشدد مظاہرے۔

ہمارے لاابالی راہنماؤں کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتی اور ہماری عوام میں یہ شعور بیدار کیوں نہیں ہوتا کہ لائیبریوں لیبارٹریوں درسگاہوں کو آباد اور مسلم ممالک کے اتحاد کے بغیر ظالم کا ہاتھ روکا جا سکتا ہے اور نہ منہ توڑ جواب۔ اس کے بغیر ہم سطحی اور اوسط درجہ کی حامل قیادت کے ہاتھوں بے وقوف بنتے رہیں گے جو کبھی ہمیں ایشین ٹائیگر تو کبھی امت مسلمہ کی قیادت کے جھوٹے خواب دکھا کر اہنی عوامی وفاداریاں پکی کر رہے ہیں۔

ہمیں اب اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور سوچنے کی ضرورت کہ اب تک فلسطینیوں و کشمیریوں کے لیے عملا ہم اور مسلم ممالک کر ہی کیا سکے۔ ہمارے پرتشدد مظاہروں سے سوائے اپنے ملک کے نقصان کے ان پہ ظلم کتنا کم ہوا اور سفارتی محاذ پر کونسی کامیابی ملی اس نکتہ کو پلے باندھ کر از سر نو صف بندی کی ضرورت ہے اور تو کیا کرنا پاکستان سمیت مسلم ممالک کے ڈیڑھ ارب مسلمان تو ابھی تک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی نہ کر سکے۔ حقیقت یہی ہے جو بیان کی گئی اب یہ کسی کو بری لگے یا اچھی اس سے زمینی حقائق بدلتے ہیں نہ حالات کہ

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔۔

Check Also

Allama Shafiq Laghari

By Rauf Klasra