Ba Hosh Bash Ke Sayyad e Ma Kohan Dam
بہ ہوش باش کہ صیاد ما کہن دام

ماتھے پہ ذلت کا سندور سجائے کینہ پرور اور مکار دشمن سے کچھ بھی متوقع، معاہدے کا ٹوٹنا بھی اور رات کی تاریکی میں حملہ بھی۔ مگر انہیں علم نہیں اس دھرتی کے محافظ اور ہمارے شاہین تمہاری سوچ سے بھی زیادہ بلند ہمت و بلند پرواز کہ جن کا اللہ پر یقین غیر متزلزل اور شہادت آرزو۔ دشمن بھارت جیسا گھٹیا اور دغا باز ہو تو چوکس رہنا اور بھی ضروری، کہ
صیاد ما کہن دام است۔
یہ درست کہ جنگ کی تباہ کاریوں کے اثرات قوموں کو دہائیوں تلک سہنا پڑتے ہیں مگر کیا عجب نہیں کہ اس مختصر جنگ نے دشمنوں اور منافقین کے سامنے پاکستان کو نہ صرف سربلند کر دیا بلکہ یہ پوری اسلامی دنیا کا غیر اعلانیہ محافظ کے طور پر بھی سامنے آیا اور نہ صرف پانچ گنا بڑے دشمن کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کی قلعی کھول کر ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے بعض مسلم ممالک کے خوابیدہ ضمیروں پر بیداری کا کچوچہ بھی رسید کیا۔
کیا اہل پاکستان نہیں جانتے! کہ خدانخواستہ، خدانخواستہ اگر پاکستان بھارت کے سامنے کمزور ہوتا تو عرب ہی کیا کم و بیش پوری اسلامی دنیا عالم کفر کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوتی یہ فتح اور کامیابی پوری اسلامی دنیا کی کہ ایک طرف بھارت تو دوسری طرف شیطان صغیر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم سب کے سامنے۔ ان سب کے سامنے اگر بنیان مرصوص ہے تو وہ آپکا (جو قومی سلامتی کے اداروں پر دن رات تعصب کے نشتر برساتے اور جھوٹا پراپیگنڈاکرتے ہیں) اور ہمارا پاکستان ہی ہے اور ہماری مسلح افواج۔
کیا آپ اب بھی دشمن کی چالبازیاں نہیں سمجھ رہے کہ وہی امریکہ جس نے پاک بھارت مسائل کو ڈیڑھ ہزار سال پرانا کہہ کر گویا اسے ناقابل حل قرار دیکر درپردہ بھارت کو جارحیت کی کھلی چھٹی دے دی تھی، مگر اپنے پرانے حلیف اور جنوبی ایشیا کی چوہدراہٹ کا خواب دیکھنے والی دنیا کی پانچویں بڑی فوج کی درگت بنتے دیکھ کر کیسے مدد کو پہنچا؟ لمحہ فکریہ یقیناََ اس کے پیچھے اسرائیل کا بھی زبردست دباؤ کہ اپنے دیرینہ حلیف کی دیرینہ حریف سے شکست کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ سیز فائر بھارت کے لیے اسرائیلی و امریکی امداد اور اسے سنبھالا دینے کا موقع ہو سکتا اس لیے چوکنا رہنا ہے، اقبال نے ان کے لیے ہی تو کہا تھا
گرفتم ایں کہ چو شاہین بلند پروازے
بہ ہوش باش کہ صیاد ما کہن دام است
(مانا کہ تو شاہین کی طرح بلند پرواز ہے، مگر ہشیار رہ کہ ہمارا صیاد پرانا شکاری ہے)۔
مگر افسوس کہ ہماری سیاسی قیادت نے اس مداخلت کو نعمت سمجھنے میں دیر نہ کی اور اسے انکی انسانیت اور امن سے دوستی جان کر دل و جان سے امریکہ پہ صدقے واری ہیں۔ جبکہ شکریہ بھارت کا بنتا ہے کہ امریکہ نے بالواسطہ مدد کرکے اسے مکمل تباہی سے بچا لیا۔ عیار دشمنوں کا گٹھ جوڑ مذاکرات کی ناکامی کا سہرا پاکستان کے سر سجا کر بازی پلٹنے کی سازش بھی رچا سکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سیکورٹی ادارے اور وزارت خارجہ کے شہ دماغ اس پر سوچ اور ہمارے عقاب بھی جاگ رہے ہوں گے کہ کون کون اور کس کس ملک کے طیارے کس ساز و سامان کے ساتھ بھارتی سرزمین پر اتر رہے ہیں۔
اس لیے اب ھم نے بھی جاگتے رہنا ہے افواج نے اگر اس سرزمین کی حفاظت کرنی ہے تو نظریاتی اور فکری محاذ ہمارے ذمہ کہ بدطینت دشمن کی ڈیجیٹیل یلغار کے خلاف بنیان مرصوص بننا ہے۔ دشمن تو دشمن اور ہر محاذ پر جارحیت اس کا شیوہ مگر اب سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر نظریاتی جنگ بھی جاری ہے اور بدقسمتی سے ہمارے بعض ناعاقبت اندیش اور نادان دوست بھی دشمن کی اس مہم میں حصہ دار۔ آپریشن راہ حق، باطل کے نظریات کی آبیاری کرنے والوں کے خلاف کب شروع ہوتا ہے اس کا انتظار ہے کہ اس کے بغیر قومی وحدت اور نظریاتی بقا ممکن نہیں۔
فتح عظیم کے بعد ایک اچھی خبر پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی طرف سے قومی سلامتی کے اداروں کو سلامی ہے۔ کہ تاریخ میں 10,123 پوائنٹس کا ایسا غیر معمولی اضافہ پہلے دیکھا گیا نہ سنا گیا۔ اعتماد کی بحالی کے بعد ایسی تیزی آئی کہ سٹاک ایکسچینج کے سسٹم کو سنبھلنے کے لیے کچھ وقت کو بند کرنا پڑا۔ پاکستان کو اس وقت ایسی ہی سلامی کی ضرورت کہ اب اسے ایسا پاکستان بننا ہے کہ جہاں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع بالخصوص دفاعی، معدنیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کے ساتھ ساتھ گوادر میں۔ قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال اس ریاست کو اب ضرورت ہے ان وسائل کو دیانت داری سے بروئے کار لانے کی۔ مگر اس کے لیے پرعزم باکردار اور اہل قیادت چاہیے کہ
پر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرہ افتاد
فی الوقت تو قوم چھوٹی اور بڑی برائی کے شکنجے میں۔ دور زوال اور ابتلا میں یقین کی چنگاری ہی ترقی اور استحکام کے دروازے کھولتی ہے نہ کہ بغض عداوت و عناد اور نفرت کہ یہ انسان کو بھی برباد کرتی ہیں اور اگر اجتماعی طور پر در آئیں تو قوم کو بھی۔ اس لیے اس ملک کی قدر کریں اور عزت کہ یہ پوری اسلامی دنیا کے لیے باعث فخر اور امت مسلمہ کی ڈھال۔ کہ
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ہم نے اب امامت کے لیے اپنے آپ کو تیار اور اہل ثابت کرنا ہے۔ یہ ذمہ داری صرف سیاسی قیادت کی بلوغت کی نہیں بلکہ ہر فرد نے اپنے احوال افعال اور کردار کا غازی بننا ہے کہ گفتار کے غازی تو ھم دہائیوں سے۔ مالی اور نظریاتی بددیانتی فی الوقت کردار کا غازی بننے میں سب سے بڑی روکاوٹ۔ بدعنوان عناصر اگر ملک کی معاشی ترقی میں روکاوٹ ہیں تو نظریاتی بددیانت قومی یک جہتی میں حائل۔ ریاست کو اب ہر دو کے خلاف راستہ اپنایا ہے بے رحمانہ اور بلا امتیاز کہ ملکی استحکام و ترقی میں روکاوٹ بننے والوں کو کھلی چھوٹ اس ملک اور قوم سے ظلم ہوگا کہ اس وطن کے باعزم جوان اور غیور باسی اب بھکاری، کرپٹ اور منافقت کے طعنوں کے ساتھ جینا نہیں چاہتے۔
مسلح افواج نے اپنی اہلیت اور وفاداری ثابت کر دی اور اس کے ساتھ انہوں نے قوم کے لیے ترقی کے دروازے بھی کھول دئیے اب ہماری ذمہ داری کہ ان کھلے دروازوں سے سرخرو گزر پاتے ہیں یا قوم بنی اسرائیل کی طرح کاہل و سست بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ پہلے ہی ہماری اشرافیہ کے رعونت بھرے رویوں نے ہزاروں محب وطن مالداروں کو بیرون ملک سرمایہ کاری پر مجبور کر دیا۔ ایسوں کے خلاف احتساب کی کڑی تلوار چلانے اور بے جا قانونی موشگافیوں کو ختم کرکے آسان اور سہل نظام وضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس جنگ نے اگر برسوں پرانے کئی فلسفوں کو بھی بدلا ہے تو ہمیں بھی بدلنا ہوگا۔
کینہ پروروں کے لیے مطالعہ پاکستان کا نصاب بدلا اور خطے کا منظر نامہ بھی۔ طاقت کا بگڑا توازن اب از سر نو مرتب ہونے کو ہے تو سرمایہ کاری کے نئے مواقع بھی سامنے۔ "جنگ مسائل کا حل نہیں" کا فلسفہ بھی ہوا پرانا تو "جنگ کے نتیجے میں صرف تباہی" کا نظریہ بھی ہوا تبدیل۔ قوم اب نئے عزم کے ساتھ بنیاد سحر رکھنے کو تیار ہے مگر شرط قیادت کے اخلاص کی۔ عسکری قیادت سرخرو ہوئی اب امتحان سیاسی دانش کا ہے جو بدقسمتی سے نایاب۔ 27 رمضان المبارک کی مقدس رات اس کرہ ارضی پر معرض وجود میں انے والی اس ریاست کو اللہ نے ایک بار پھر چار دانگ سربلند کیا ہے تو اس کی عزت، وقار، سلامتی اور استحکام کی حفاظت اب ہم پر فرض بھی اور قرض بھی۔
آٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں نئے دور کا آغاز ہے

