Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aasim Irshad/
  4. Makalma

Makalma

مکالمہ

مجھے کتابوں سے محبت ہمیشہ سے رہی ہے کتابیں خریدنا اور پڑھنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ہے کوئی بھی کتاب ہو وہ ہمارے لیے ایک نئی چیز ہوتی ہے وہ ہمیں ہر بار نئی چیز سے متعارف کرواتی ہے کچھ کتابیں وقتی طور پر ذہن میں جگہ بناتی ہیں اور کچھ کتابیں لمبے عرصے کے لیے ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔

ہم کتابوں سے دور ہو گئے ہیں اس لیے اب ہمیں لگتا ہے کہ یہ کتابوں کا دور نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی صدی کتابوں سے عشق کی صدی ہے۔ کتابیں لکھی جارہی ہیں اور مارکیٹ میں آرہی ہیں بس ہمیں ذرا سا وقت چاہیے پھر ہمیں بھی کتابوں سے عشق ہو جائے گا، اس وقت میرے سامنے مکالمہ کتاب پڑی ہے۔ یہ پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک صاحب کا ایس ایم ظفر صاحب کے ساتھ مکالمہ ہے۔

ایس ایم ظفر صاحب کے نام سے تو ہم سب ہی واقف ہیں اور ان کی پروقار شخصیت کے سحر میں مبتلا ہیں، کچھ لوگوں پر لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے ان میں ایک ایس ایم ظفر صاحب ہیں، ایس ایم ظفر صاحب کی شخصیت کے وہ پہلو جو ہم سے اب تک پوشیدہ تھے آئیے ڈاکٹر وقار ملک صاحب سے جانتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ایس ایم ظفر صاحب کو وقت مینیج کرنا آتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ جو لوگ دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں وہ سبھی غیر معمولی انسان نہیں ہوتے، البتہ ان سب میں ایک خوبی ضرور ہوتی ہے انہیں ٹائم مینیجمینٹ کا فن آتا ہے۔ جو شخص وقت ضائع کرتا ہے بظاہر وہ وقت ضائع کررہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ سب کچھ ضائع کر رہا ہوتا ہے۔

ایس ایم ظفر ٹائم مینیجمینٹ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میں سعودی عرب گیا تو جہاز میں برابر والی سیٹ پر ایک عربی بیٹھا تھا اس کے ساتھ جب میں نے عربی میں بات کی بڑا لطف آیا، لیکن میں نے عربی سیکھی کیسے یہ بڑا حیرت انگیز واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے شیو کرتے ہوئے عربی زبان سیکھ لی وہ اس طرح کے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتا میں نے واش روم میں ایک ڈیک رکھا ہوا ہے اور مارکیٹ میں عربی زبان سیکھنے کے حوالے سے جو کیسٹیں ملتی ہیں وہ لے آیا اور روز شیو کرتے وہ کیسٹ لگا لیتا ہوں اب ان کی مدد سے اتنی عربی زبان سیکھ لی ہے کہ ایک عربی سے عربی زبان میں بات کر سکوں۔

ایس ایم ظفر صاحب کی جو سب سے بڑی خوبی ہے وہ اپنا ماضی نہیں چھپاتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھر کے مالی حالات اچھے نہیں تھے، مگر والدین نے میری گریجویشن تک یہ حالات مجھ سے چھپائے رکھے۔ جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا اور خواہش کا اظہار کیا کہ میں اب پنجاب یونیورسٹی لاء میں داخلہ لینا چاہتا ہوں تو والد صاحب نے کہا کہ آپ لاء کالج میں داخلہ لینے کی بجائے بینک میں بطور کلرک کام کریں گے۔

ایس ایم ظفر صاحب کہتے ہیں کہ سن کر مجھے اپنے مستقبل کے خواب چکنا چور ہوتے دیکھائی دیے، میں چک قاضیاں نارووال میں چارپائی پر بیٹھا سوچوں میں گم تھا کہ والدہ میرے پاس آئیں اور کہا کہ ظفر پریشان نہ ہو آپ لاء کالج میں داخلہ لے لو اور اپنے بازوؤں سے سونے کی چوڑیاں اتار کر مجھے دے دیں میں نے وہ چوڑیاں لیں اور بیچ کر لاء کالج میں داخلہ لے لیا اور پھر لاء کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔

ایس ایم ظفر صاحب عدلیہ میں یک طرفہ نہیں بے لاگ احتساب چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آج تک حاکم وقت کا احتساب نہیں ہوا۔ جب کبھی کوئی حکومت سے اترا ہے یقیناً اس کے خلاف کارروائی ہوئی ہے لیکن حکومت میں رہتے ہوئے کسی کے گلے تک پھندا نہیں پہنچ سکا یہی وجہ ہے کہ ابھی تک انصاف اور عدل جا بول بالا نہیں ہو سکا۔

اس کے علاوہ ایک اور مرض نشاندھی کرنی ضروری ہے اور یہ کہ آنے والی حکومت اگرچہ جانے والی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کرتی ہے اور احتساب کا نام دیتی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد ہی دونوں میں مک مکا ہو جاتا ہے، ایس ایم ظفر صاحب کے نزدیک اس وقت عوام کے دلوں میں کرپشن کے خلاف اتنا لاوا بھر چکا ہے اور اجتماعی شعور میں اتنی نفرت پیدا ہو چکی یے کہ یہ احتساب عوامی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

فرانس کا انقلاب ایسی ہی صورتحال میں آیا تھا جب عوام کے دلوں میں اس وقت کے خواص کے خلاف نفرت بڑھ گئی اور عدالتیں مخصوص طبقے کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے قاصر ہو گئی تھیں تو عوام نے سڑکوں پر عدالتیں لگائیں اور پھر اس وقت وہ آلہ ایجاد ہوا جسے گلوٹین کہتے ہیں۔ یہ تیزی سے اس شخص کی گردن پر گرتا اور اس کا سر تن سے جدا ہو جاتا تھا، فرانس کے عوام نے جگہ جگہ گلوٹین لگادیے اور خواص کو مارنے لگے اس خونی انقلاب کے بعد فرانس نے بھی ترقی کرلی کیونکہ انہوں نے خواص کا کڑا احتساب کیا۔

میرٹ کے فقدان پر بات کرتے ہوئے ایس ایم ظفر صاحب کہتے ہیں کہ سنگاپور کے وزیراعظم نے ایک بار بھری محفل میں بتایا کہ جب اس نے حکومت سنبھالی تو اسے بھی معلوم تھا کہ اس کی کابینہ کے کچھ لوگ کرپٹ ہو سکتے ہیں چنانچہ اس نے ملک کے تین ایسے افراد تلاش کیے جن کے متعلق اسے اور اس کی کابینہ کے دیگر ممبران کو یقین تھا کہ یہ ملک کے سب سے دیانت دار اور سچے انسان ہیں۔

وزیر اعظم نے ان تین افراد کو یہ فرض سونپا کہ اگر انہیں حکومت کے کسی وزیر کی بدعنوانی کے متعلق اطلاع ملے تو وہ فوراً وزیراعظم کو بتائیں گے، جن دو وزراء کی بدعنوانی کی اطلاع وزیر اعظم کو دی گئی تو سنگاپور کے وزیراعظم مسٹر لی کہتے ہیں کہ اتفاق سے وہ دونوں میرے بڑے عزیز دوست تھے لیکن میں نے دوستی کو کوئی اہمیت نہ دی اور ان دنوں وزراء کو فارغ کر دیا۔

آج سنگاپور ترقی کی منزل پر گامزن ہے وہ دوسرے ممالک سے قرضہ لینے کی بجائے انہیں قرضہ دیتا ہے۔ سنگاپور کی کئی یونیورسٹیاں بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکی ہیں، ایس ایم ظفر صاحب ذہنی غلامی کو ہماری ناکامی کی وجہ سمجھتے کوئے کہتے ہیں کہ ہماری غلامی کا دور اسی لیے طویل ہوا کہ ہم نے خود اپنے گلے میں غلامی کا طوق پہنے رکھا۔ ماضی کا یہ سایہ ابھی تک پوری طرح تحلیل نہیں ہوا آج بھی بڑے بڑے مصاحب نئے نئے خواب بیچتے پھر رہے ہیں اللہ کرے اب ان کا کوئی خریدار نہ ہو اور قوم بھی غلامی سے نکل کر آزادی کا سوچنے والی بن جائے۔

Check Also

Aisa Kyun Hai?

By Azam Ali