Khaam Khayali
خام خیالی
کراچی کی ایک ادبی نشست میں بیٹھا تھا کہ اچانک سے ایک دوست بولے "آپ کو کیا لگتا ہے خان صاحب پانچ سال نکال جائیں گے؟ میں پہلے تو ہنسا پھر اس ناگاہ سوال کا کوئی مناسب جواب سوچنے لگا ابھی سوچ و بچار میں تھا کہ اتنے میں وہ حضرت پھر گویا ہوئے "جناب مجھے تو نہیں لگتا ان کے وزیروں مشیروں کی حرکتوں سے۔ لگتا ان کی چھٹی ہونے والی ہے۔"
ان کے خاموش ہونے پر میں نے کہا "جناب اس ملک میں اب تک کوئی خوش نصیب وزیراعظم نہیں آیا جو اپنی مدت پوری کرگیا ہو۔ نوازشریف تین بار وزیراعظم بنے تینوں مرتبہ وقت سے پہلے ہی منصب سے بے دخل ہوگئے۔ کوئی کرپشن، کوئی سازش، کوئی توہین عدلیہ کی بھینٹ چڑھا تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسا ہی کوئی مافیا یا جج کسی دن خان صاحب کو بھی نااہل کر دے گا۔ جو کوچہ جاناں سے نکلتے نہیں وہ نکالے جاتے ہیں۔"
اس ساری امید پر ملک کی ایک متنازعہ اور اہم ترین سیاسی جماعت الیکشن کمپین کی طرح مہم جوئی میں بھرپور انداز سے لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ کسی پلان کا حصہ ہے۔ خان صاحب اپنے ہر خطاب میں یہ بات ضرور باور کرواتے ہیں کہ وہ پانچ سال پورے کریں گے۔
واقعات کا تسلسل، عدلیہ کی شفافیت پر سوال اٹھاتے سرکاری وزیر مشیر، کہیں ایسا کوئی کام تو نہیں کروا دیں گے کہ کسی توہین عدالت کے کیس میں خان صاحب کو نااہل قرار دے دیا جائے گا اور ان کی جگہ پھر نئے آدمی کی تلاش شروع ہوجائے گی۔ شاہ محمود اس عہدے کے بڑے مضبوط امیدوار ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کا رونا دھونا بھی عنقریب شروع ہوا چاہتا ہےجو مارچ میں متوقع ہیں۔ شاید اسی لیے چھوٹے چور اب نیب کی بجائے ایف آئی اے کے ذریعے سیدھا حکومت کے نرغے میں ہوں گے۔ جس کی وجہ سے تمام صوبوں خاص کر پنجاب کے بلدیاتی انتخابات پر اثر پڑے گا۔ اچانک سے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب اختیارات میں کمی سے اب صرف پچاس کروڑ سے اوپر کی کرپشن کرنے والے نیب کی زد میں آئیں گے۔ پھر اس پر حکم امتناعی آدھا تیتر آدھا بٹیر والی صورتحال پیدا کردے گی۔ دونوں ادارے سمجھ نہیں پائیں گے کہ کیس کس کا ہے۔ ایسے لگتا ہے سسٹم کو اس ملک سے وفات پائے عرصہ دراز ہوچکا۔
بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے تحریک انصاف پھر اپنے ملک کی مقبول ترین جماعت کا ڈھنڈورا پیٹے گی۔ نیب کو غیر فعال کرنے کا مشن جاری ہے جس کے محرکات نیب کی ناقص کارکردگی ہے جو چوروں کو سزا کی بجائے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اب کچھ چور احتسابی عمل اور نظام کا منہ چڑاتے آرام سے نکل جائیں گے جو بچ گئے وہ ایف آئی اے کے تفتیشی عمل کو بھگتیں گے۔
ادھر بھارت میں ایک بندر کے ہاتھ ماچس لگ گئی ہے وہ اپنی مرضی سے جنگل آگ لگاتا جارہا ہے۔ یہ بات سچ میں تشویش طلب ہے۔ اس حماقت پر وہ دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے کوئی عسکری اڈوینچر کرنے کو پرتول رہا ہے۔
سیاسی درجہ حرارت اور ملکی معیشت کا راست تناسب ہے۔ جتنا سیاسی درجہ حرارت کم ہوگا معشیت اس قدر جلدی صحت یاب ہوگی۔ مگر جب سے تبدیلی والے تشریف لائے ہیں افواہوں اور سیکنڈلز کا بازار گرم ہے۔ اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی جماعتیں تو جیسی کیسی ہیں حکومت کے اتحادی اور دیگر کی اخلاقیات پر روز بروز انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ گویا خان صاحب اپنا تابوت خود تیار کررہے ہیں۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ یہ کتنے وقت میں تیار ہوگا اس میں آخری کیل عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ ہی ٹھونکے گی۔