Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Zahoor
  4. Hujoom Ka Noha

Hujoom Ka Noha

ہجوم کا نوحہ

میں اس بات پر کافی سوچ و بچار کرچکا ہوں کہ ایک ہجوم کا نوحہ لکھنے کا کیا طریقہ ہوسکتا ہے۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ اس ہجوم کے لیے نوحہ لکھنا بھی چاہیے کہ نہیں۔ اس ہجوم کا نام پاکستانی قوم ہے ایک بے حس، ستم رسیدہ، سفاک، منافق اور لالچی قوم۔ ابھی کچھ اوصاف اور بھی ہیں جن کو یہاں لکھ کر فہرست لمبی کی جاسکتی ہے مگر چھوڑیے۔ ہماری پیدائش سے اب تک اس ہجوم نے شاید ہی کبھی کوئی خوشی کا دن یا تہوار دیکھا ہو۔ کبھی زلزلے، کبھی دھماکے، کبھی حادثے کبھی کچھ کبھی کچھ۔ میں پہلے سوچتا تھا کہ یہ ہماری بری قسمت ہے مگر جب وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ سے شناسائی ہونے لگی تو معلوم ہوا یہ قسمت کی خرابی تو 70 برس قبل بھی ہمارا مقدر تھی۔ میں نے مزید پیچھے جانے کا فیصلہ کیا تو معلوم ہوا یہ سلسلہ تو بہت پرانا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے پر تلواریں چلائیں، ہم نے زلزلہ زدگان کے زیور لوٹے چاہے ان کے کان اور انگلیاں ہی کیوں نہ کاٹنا پڑی۔ ہم نے امدادی رقوم ڈکار لیں۔ ہم نے سانحے پلانٹ کیے ہم نے دھماکے سہے، تخریب کاریاں، جلتی ٹرینیں ٹریک سے اترتی دیکھیں۔ جہاز گرتے دیکھے۔ دشمن کے گولے اپنے گھروں کی طرف بڑھتے دیکھے۔ موٹر وے گینگ ریپ کوئی نئی بات ہے۔

میں کس کس کا رونا رووں؟ ایک بے مہار ہجوم ہے جو ایک نامعلوم گڑھے کی طرف بڑھتا ہوا جارہا ہے۔ اس ہجوم کے بھوکے ننگے لوگ یعنی بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل رہی ہیں۔ میں اپنے آس پاس پھٹکتے بھیڑیوں کی بو سونگھ سکتا ہوں۔ میرا گھر، کاروبار، یہاں تک کہ جان مال سب غیر محفوظ ہے۔ میں روز شرمندہ ہوتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کب کوئی راہزن میری تاک میں بیٹھا ہو اور مجھ پر دھاوا بول دے۔ کب کوئی اپنا اندر ہی اندر میری جڑیں کاٹ دے۔ کب کوئی سفاک اپنی سفاکی مجھ پر آزما دے۔ میرے ضلع کے پولیس افسر کا منشی علاقے کی سیکورٹی کی شکایت پر مجھے پرائیویٹ گارڈ رکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ اور ہر ماہ میرے ٹیکس کے پیسوں سے آنے والی تنخواہ ڈکارنے اے ٹی ایم مشین کے سامنے موجود ہوتا ہے۔

میرے جرنیلوں کا کام مورچے میں جوانوں کا حوصلہ بڑھانا ہے جبکہ وہ پراپرٹی ڈیلر بنے ہوئے ہیں۔ میرے دیس کے صحافی جھوٹے اور بلیک میلر ہیں۔ میرے دیس کے وکیل بدمعاش اور مافیا ہیں۔ میرے دیس کے ڈاکٹر قصائی ہیں جبکہ قصائی حرام کھاتے اور کھلاتے ہیں۔ میرے دیس کے سیاستدان دیمک ہیں۔ ان کے دل کالے اور پتھر کے ہیں۔ کرپشن ان کا شعار ہے۔ بدعنوانی ان کا مزاج ہے۔

میرے دیس کے افسر منہ زور ہیں وہ غریب آدمی کا ٹھیلہ تو توڑ سکتے ہیں مگر طاقت والے کی غیر قانونی کوٹھی کو ہاتھ ڈالتے ڈرتے ہیں۔ میرے دیس کے مفتی شر پسند اور فرقہ واریت کے پروانے ہیں۔ میرے دیس کے قاضی غاصب کے نگہبان ہیں۔

میں بھی اسی ہجوم میں سے ہوں۔ اس ہجوم کا کا کچھ نہیں ہونے والا۔ میں تو کیا دنیا کا کوئی لکھاری بھی اس کا نوحہ نہیں لکھ سکتا۔ پوری دنیا کا کوئی قانون ہجوم کی زد میں آنے والوں کا ساتھ نہیں دیتا۔

ہم زود فراموش کل کسی نئے سانحے کے ماتم میں اسے بھی بھول جائیں گے۔ ہم شاید کراہ ارض کے بدبخت ترین لوگ ہیں۔ اور میں اس بات سے سہما ہوا ہوں کہ جب جہنم کی آگ میں جلتے ہوئے ایک فرنگی ہم سے وہاں بھی ایک درجہ اوپر ہوگا تو کیسے سمجھائیں گے خود کو کہ منافقت کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ ہمارا تو وہ حساب ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ ہمارے لیے یہاں بھی مرگ مفاجات ہے اور آخرت میں بھی اپنا انجام کچھ کھٹکتا ہے۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad