Danish Mar Gayi
دانش مرگئی
رومن فلسفی مارکس پورشیس کیٹو سے جب عورتوں سے متعلق بات کی گئی تو اس نے کہا "اچھا تو تم ان کے حقوق کی بات کرلو۔ اگر یہ عورتیں اپنے حقوق میں برابری حاصل کرنے کے مطالبے میں کامیاب ہوگئیں تو یہ بات لکھ کر رکھ لو کہ یہ ایک دن مردوں سے بالا دست ہوجائیں گی اور تم پر حکمرانی کریں گی۔"
مارکس کی اس بات سے انکار تو شاید ممکن نہیں کہ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک میں عورت حکمرانی کا ذائقہ چکھ چکی ہے۔ 8 مارچ عورتوں کے عالمی دن پر عورت مارچ کا چرچا ہر طرف ہے مگر اس کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔
عورت نے اپنے استحصال سے بغاوت کا آغاز یوں تو تیسری صدی قبل مسیح سے کیا تھا۔ جب اس نے "Capitoline Hill" اس وقت یونان کے اسلام آباد کے تمام راستے بلاک کرکے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا۔ لیکن یہ بس آغاز تھا اور فیمنزم کی تاریخ کی لکیر بھی۔ جس پر چلتے چلتے اب ہم چوتھے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس کے تانے بانے تو خیر پرانے ہیں مگر قریب کی نظر سے دیکھیں تو معلوم پڑے گا کہ چودھویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ مختلف خاتون لکھاریوں نے اس پر کتابیں لکھ کر عورت کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اگر تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو ہر آزاد خیال نظریے کے تانے بانے فرانس سے جا ملیں گے۔ یہ مطالبہ جلد یا بدیر سولہویں صدی عیسوی میں انگلستان بھی پہنچ گیا۔ اس کے پھیلاؤ پر مرد ذات نے کافی مزاحمت کی اور کسی حد تک کامیاب بھی رہی۔ فرانسیسی فلاسفر جین جیکوئس روشو نے تو اس مطالبے اور عورت ذات تک کو احمق اور مرد کے حقوق پر ڈاکہ قرار دے دیا۔
1789 کا انقلاب فرانس بھی فرانسیسی عورت کی زندگی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لا سکا۔ اگر اس دور میں عورت کی کسمپرسی بیان کی جائے تو فرانس میں عورت کی ننگے سر نقل وحرکت ناقابل قبول حرکت تھی اور جرمنی میں عورت یا بیوی کو بیچنا ایک عام سی بات تھی اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس کے باوجود یہ تحریک انگلستان اور فرانس میں سانس لیتی رہی۔ یہ مزاحمت انیسویں صدی میں مشرق وسطیٰ تک پہنچ گئی۔ یہ ایسا وقت تھا جب دنیا میں فیمینسٹ روزنامے چھپنا شروع ہوچکے تھے۔
جولائی 1848 میں پہلی خواتین کے حقوق کی کنونشن ہوئی جس سے بظاہر تو خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکے مگر اس نے اپنی بڑھوتری جاری رکھی۔ 1926 میں اچانک یہ خیال کیا جانے لگا کہ یہ تحریک اپنا مقصد پورا کرچکی ہے اور کامیاب ہوچکی ہے۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس نے بہت سے نام اور اشکال تبدیل کیں۔ اس میں گروہ بندیاں بھی ہوئیں۔ تنقید، مخالفت اور مزاحمت تو ازل سے اس کا مقدر تھی۔ امریکہ بہادر نے بھی اس تحریک کی ترویج و تقویت کے لیے اپنا پورا حصہ ملایا۔ تمام صدور نے مختلف طریقوں اور ناموں سے اس کو جلا بخشی۔ بیسویں صدی کے اواخر تک مڈل کلاس کی گوری عورت اس کی کرتا دھرتا تھی۔ جب اس طوفان نے اچانک اپنا سر اٹھایا اور مشرق وسطیٰ، ایشیاء، افریقہ کا رخ کیا تو طالبان جیسے فیمینسٹ مخالف عناصر نے افغانستان جیسے ملک سے اسکا نام و نشان تک مٹا دیا۔ یہ اس تحریک کی تیسری لہر تھی۔
اس کی چوتھی لہر نے 2012 میں اٹھی۔ 21 جنوری2017 کو پانچ ملین کے لگ بھگ لوگوں نے واشنگٹن ڈی سی میں عورت کے حقوق کے لیے احتجاج کیا۔ پوری دنیا میں احتجاجی سلسلہ دیکھا گیا جس میں مغرب پیش پیش تھا۔ اس تحریک کے دو حلقے ہیں ایک حلقہ لبرل ہے جبکہ دوسرا حلقہ بنیاد پرستوں کا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی لابی ہے جو اب اسلحے کی طرح کاسمیٹکس، کپڑے کی برانڈز، پرفیوم، میک اپ کے سامان کی مارکیٹ بڑھانا چاہتی ہے۔ جو حجاب اور اسلامی روایات کے ہوتے ہوئے مشکل کام ہے۔ اسلام نے مرد اور عورت کی حدود واضح طور پر طے کی ہیں۔ ان کی پاسداری ریاست اور معاشرے کا کام ہے۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے دونوں ہی کمزور واقع ہوئے ہیں۔ تو ایسے میں عورت کے استحصال کو اسلام کی بنیاد پرستی سے جوڑنا اور پروپیگنڈہ کرنا کتنا بڑا ظلم ہے۔
پاکستان میں یوں تو 1960 میں APWA کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ اس تحریک کو پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین نے سپورٹ کیا اور ان کے ادوار میں یہ خوب پھلی پھولی۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ بذات خود وزیراعظم کے عہدے پر دو مرتبہ فائز رہیں۔ عورت کو استحصال سے بچانے کے لیے 2006 میں می ٹو نامی مہم بھی چلائی گئی۔ انقلابی اور کیمونسٹ روس میں 1917 میں ہونے والے عورت کے استحصال پر 8 مارچ کو لوگ سڑکوں آگئے۔ 1967 وہ سن تھا کہ جب تک سوشلسٹ، کمیونسٹ اور فیمینسٹ ایک ہوچکے تھے۔ سو اس سب کو دیکھتے ہوئے 1975 سے اقوامِ متحدہ نے بھی اسے عورت کے عالمی دن کے طور پر منانا شروع کردیا۔ نیوز چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ پاکستان کی فیمنزم میں پیش پیش خواتین کی تعداد دو درجن سے بھی زیادہ ہے جن میں عاصمہ جہانگیر، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، ادا جعفری، مختاراں مائی ملالہ یوسفزئی اور قندیل بلوچ اور ماروی سرمد ان میں سے چند ایک ہیں۔ کچھ تو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
41 کے لگ بھگ فیمینزم ایکٹوسٹ بھی اس ملک میں موجود ہیں تہمینہ درانی صاحبہ، عارفہ سیدہ زہرہ، منیبہ مزاری، جگنو محسن ان میں نمایاں ہیں۔ عارفہ سیدہ کی گفتگو جن لوگوں نے سن رکھی ہوگی وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ وہ مولوی کو ہمیشہ ملا کے نام سے یاد کرتی ہیں۔
13 کے قریب فیمینسٹ لکھاریوں میں عطیہ داوود، خدیجہ مستور، پروین شاکر، زاہدہ حنا شامل ہیں۔ گو کہ اس معاملے پر پروین شاکر کا حصہ بہت قلیل مانا جاتا ہے۔ جس کا اعتراف پچھلے دنوں افتخار عارف صاحب نے ایک ادبی تقریب میں بھی کیا۔ ایسی تحریکوں کا بنیادی نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ بنیادوں کو نگل جاتی ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے میں مین سڑیم میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہے یہ تو اس کا ٹریلر ہے۔ ماروی سرمد اور خلیل الرحمان قمر کی لفظی جھڑپ سے اٹھنے والا تعفن ہماری سماجی اور معاشرتی اقدار پر سوالیہ نشان لگا گیا ہے۔ پاکستان کی 95 فی صد عورتوں کے جو مسئلے ہیں ان کو تو کبھی ایسی عورتوں نے سامنے ہی نہیں لایا تو کیسے وہ ایک عورت کے نام پر ایک پتلی تماشا کرنے کی مجاز ہوسکتی ہیں۔
میڈیا کے پاس بحران کی وجہ سے اچھا پیڈ سکرپٹ آچکا ہے جس پر دونوں پارٹیوں سے نوٹ بٹورنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے مختلف بحران جنم لے چکے ہیں جن میں نظریاتی بحران نمایاں ہے۔ خود میڈیا میں عورتوں کی نمائندگی مردوں سے کہیں زیادہ ہے جو اس نعرے کی نفی کرتی ہے۔ خلیل الرحمان قمر جیسے پیڈ رائٹر بھی اپنے خود ساختہ نظریے کے دفاع کے لیے نظریے کی ڈھال استعمال کررہے ہیں۔ لوگ واویلا کررہے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ سب حکومت کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ پوری پیپلز پارٹی اس مارچ اور مطالبے کے حق میں ہے جبکہ تحریک انصاف کے چند نمایاں وزیر بھی اس کو شہ دے رہے ہیں۔ رہی بات ن لیگ کی تو اس میں ابھی موقف دھندلا اور غیر واضح ہے۔ سب لوگ ہی اپنی اپنی حد تک کتنے استعمال ہورہے ہیں یہ بات آنے والے دنوں میں بخوبی واضح ہوجائے گی۔ مگر یہ بات تو طے ہے کہ اس معاشرے کے اکثریتی طبقات کی دانش وفات پا چکی ہے۔