Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Tehreer Mein Taseer Kaise Ho

Tehreer Mein Taseer Kaise Ho

تحریر میں تاثیر کیسے ہو

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

دنیا میں کروڑوں کتابیں لکھی جا چکی اور بے شمار تحاریر، جن کو کہ شاید گنا بھی نہیں جا سکتا، لیکن بہت کم تحریریں ایسی ہیں جو کہ آپ کے دل میں اُتر کر باطن تبدیل کر سکتیں ہیں۔ یعنی آپ کے باطن میں تبدیلی پیدا کر سکتی ہیں، تو سوال یہاں یہ ہے کہ وہ کون سی تحاریر ہیں یا وہ کون سی کتابیں ہیں جو کہ آپ کا باطن تبدیل کر دیں، آپ کے باطن کو روشنائی عطا کریں۔

اِس کا جواب دینا بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ یہ سب انفرادی معاملہ ہے، ایک فرد جانتا ہے کہ کس تحریر سے اُس میں تبدیلی آئی ہے۔

عرض یہ ہے کہ کتابوں سے باطن اُس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتا جب تک مصنف سے ایک نسبتِ قلبی نہ ہو جائے، حتیٰ کہ الہامی کتابیں بھی آپ کا اندر تبدیل نہیں کر سکتی جب تک کہ ایک تعلق قائم نہ ہو، بات مکمل تب ہی ہوگی جب تعلق اور نسبت قائم ہو۔

کتاب لکھنے والے کے ساتھ ایک تعلق ایک نسبت ہو جائے تو اُس کا ہر جملہ ہر حرف آپ کے اندر اُتر سکتا ہے اور آپ میں ایک تبدیلی پیدا کر سکتا ہے، اگر نسبت یا تعلق قائم نہیں ہو سکا تو کتاب کا علم صرف ایک سطحی علم ہی رہ جائے گا، وہ آپ کے روزمرہ کے معاملات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا۔

قران مجید پڑھنے کے لیے بھی قرآن کی پہلی شرط ہے متقی ہونا، سورہ فاتحہ کے بعد ابتدائی آیات میں یہی احکامات ہیں، متقی ہونے سے مراد ہے ایک مضبوط نسبت قائم کر لینا اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ اور اُس کے محبوب سرکار ﷺ کے ساتھ، اسی لیے ارشاد ہے کہ یہ ہدایت ہے متقین کے لیے، مسلمان کے لیے یہ ایک بنیادی شرط ہے، پھر ہی بات آگے بڑھ سکتی ہے، نہیں تو قرآن بھی حجاب ہی رہ جائے گا۔

اِس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت سب سے زیادہ ہو رہی ہے، دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قران مجید ہی ہے، اِس کے ساتھ اگر دنیا میں مسلمانوں کے حالات دیکھیں تو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں، اِس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ ہم وہ تعلق اور نسبت قائم نہیں رکھ سکے اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ جو کہ قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے لیے پہلی شرط ہے۔

اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ تعلق اور نسبت رکھنے کا واحد راستہ اُس کے محبوب سرکار ﷺ کے ساتھ تعلق اور نسبت ہے، اگر آپ وہ تعلق اور نسبت نہیں رکھ سکے تو پھر قرآن کیا پورا دین ہی حجاب ہے۔

محبت اور نسبت کے بغیر دین کی اصل روح آپ تک نہیں پہنچ سکتی، چاہے آپ جس مرضی بابے یا عالم کے پاس چلے جائیں، یہ طلب اور عطا کا کھیل ہے جتنی سچی طلب ہوگی اتنی ہی جلدی عطا ہوگی۔

یہاں ایک اور بات ذہن میں آتی ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ محبت یا تعلق قائم ہوگیا ہے، تو عرض یہ ہے کہ یہ کیفیت جس پہ اُترتی ہے اُس کو معلوم ہوتا ہے اور اہلِ نظر بھی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ شخص محبت میں داخل ہو چکا ہے اور راز کی بات تو یہ ہے کہ مصنف کی تحریر میں بھی تاثیر اُسی وقت آئے گی جب اللہ تبارک و تعالی کا حکم ہوگا۔

آپ جو مرضی کر لیں جتنے مرضی پینل بٹھا لیں لیکن مرزا غالب جیسا، میر تقی میر جیسا ایک شعر بھی نہیں کہہ سکتے، یہ عطا ہے، یہ رب کریم کی مرضی ہے جس کو عطا کرے۔

ہو سکتا ہے اُس کا کوئی عمل کوئی عبادت کوئی نیکی اللہ تبارک و تعالی کو پسند آ جائے، یا بزرگوں کی دعا بھی لگ جاتی ہے، بزرگوں نے اپنے وقتوں میں کچھ محنتیں، ریاضتیں، عبادتیں کی ہوتی ہیں جو کہ کام آ جاتی ہیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی دنیاوی شخصیت سے اتنی نسبت ہو جائے اتنی محبت ہو جائے کہ اُس محبت کی بدولت یہ تاثیریں عطا ہو جائیں اور گفتار اور تحاریر کو با تاثیر کر دیا جائے۔

آپ کے ہاتھ میں دعا ہی ہے، ایک سچی لگن پورے اخلاص کے ساتھ دل میں ہو تو دعا لگ سکتی ہے، کام بن سکتا ہے اور راز کی بات یہ ہے کہ کسی سے سچی محبت جب عطا ہو جاتی ہے تو پھر اس کا کہا ہوا ہر لفظ سند ہو جاتا ہے ایک ایک جملے کے پیچھے معرفت کے خزانے کھول دیے جاتے ہیں، آپ کی گفتار اور تحریر کو با اثر کر دیا جاتا ہے، با تاثیر کر دیا جاتا ہے آج کے دور کے مصنفوں کو میرا مشورہ ہے کہ کچھ لکھنے سے پہلے ایک گہری نسبتِ قلبی پیدا کریں کسی بھی شخصیت کے ساتھ اپنے اندر وہ حقیقت پیدا کریں جو حقیقت حضرت امام غزالیؒ نے پیدا کی تھی اپنے باطن کے اندر، آپ اپنا ظاہری منصب چھوڑ کر دو سال کے لیے گوشہ نشین ہو گئے تھے اور مرید ہوئے تھے اپنے بڑے بھائی کے، پھر ہی آپ کو قلم عطا ہو سکتا ہے، آپ کی تحریر کو امر کیا جاسکتا ہے ہمیشہ کے لیے کیونکہ جب قلم عطا ہوگا تو پھر بات کچھ اور ہوگی یہ کمپیوٹر سے مصنوعی ذہانت سے یا گوگل سے حاصل کی ہوئی معلومات بہت سطحی ہیں اور غیر دیرپا ہیں ان کی عمر زیادہ نہیں ہے ان کا پیغام آفاقی نہیں ہو سکتا انسان کے درد کا مداوا نہیں کر سکتا، یہ تعلیم حاصل کرکے سیکھا تو جا سکتا ہے لیکن علم اور چیز ہے علم عطا ہوتا ہے کسی کی نگاہ سے کسی کی نسبت سے کسی کے فیض سے۔

اللہ تبارک و تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz