Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Sona Kundan Banna Hai

Sona Kundan Banna Hai

سونا کندن بننا ہے

بے شمار درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

روحانیت کے سفر میں جو سب سے بڑی مشکل درپیش رہتی ہے وہ ہے تکبر، ہر انسان کی زندگی کا سفر دراصل روحانیت کا سفر ہی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو زندگی میں کچھ واقعات ایسے گزرتے ہیں جن کی کہ کوئی عقلی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی، یہ واقعات خالصتاً ایک نسبت اور ایک تعلق کے تحت ہی ہو سکتے ہے، کچھ لوگ اِن کیفیات کو پہچان لیتے ہیں اور اِس سفر میں آگے بڑھتے ہیں۔

اِس سفر میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ہے تکبر یعنی میں، اِس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے، بزرگوں نے بہت سے ورد، وظیفے، مراقبے اور مجاہدے بتائے ہیں، جس سے کہ روح پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹایا جا سکتا ہے، یعنی کہ میں کو ختم کیا جا سکتا ہے، تاکہ اپنے اندر کے اندر کی خوشبو کو محسوس کیاجا سکے۔

اِن میں سے بہت سے طریقے گزشتہ تحاریر میں بیان کر چکا ہوں، یہ طریقے اپنانے میں انسان کی خود کی کوشش شامل ہوتی ہے یعنی آپ اپنی مرضی سے یہ طریقے اپنا سکتے ہیں، لیکن سب سے بہتر ہے کہ آپ اپنے وجود کو حالات و واقعات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔

دوسرے لفظوں میں تسلیم و رضا کے پیکر ہو جائیں، بالکل ایسے ہو جائیں جیسے کہ ایک سوکھی لکڑی ایک بہتے ہوئے پانی میں تیر رہی ہوتی ہے، اِس کا کوئی اپنا زور کوئی اپنی سمت نہیں ہوتی۔

اِسی طرح انسان کو بھی اپنے وجود کو چھوڑ دینا چاہیے اللہ تعالی کی رضا کے لیے کہ جو یار کی مرضی، بزرگ فرماتے ہیں کہ اپنے وجود کو کبھی کبھی آٹو پائلٹ پہ لگا لیں، اب آٹو پائلٹ پہ لگے ہوئے وجود جو کہ دراصل آپ کے کنٹرول میں نہیں ہوتا، اس میں جو غلطیاں، کوتاہیاں اور غلاظتیں دور کی جاتی ہیں اُس کا طریقہ کچھ مختلف ہوتا ہے اور تھوڑا سخت بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ جب سائیں ہاتھ پکڑتے ہیں تو پھر وہ اپنے طریقے سے صاف کرتے ہیں اور اندر کی "میں" کو یا اندر کے تکبر کے بت کو اپنے طریقے سے توڑتے ہیں۔

اس ضمن میں بہت سی مثالیں آپ اپنے ارد گرد دیکھ سکتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے اسی قسم کی ایک مثال میری نظروں سے گزری ہے جس میں کہ میرے بہت ہی اچھے دوست جو کہ تقریباً بیس سال تک ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور ڈائریکٹر فرائض انجام دیتے رہے ہیں، لیکن کچھ حالات کے تحت انہیں اپنی گاڑی کرائے کے طور پر استعمال کرنی پڑی اور ڈرائیور کے طور پر ایک فیملی کے ساتھ اٹیچ ہونا پڑا جو کہ امریکہ سے پاکستان آئی تھی۔

آپ اُس تکلیف کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ جن ہوٹلوں میں وہ خود رہا کرتے تھے وہاں پہ انہیں ڈرائیوروں کے کمرے میں رہنا پڑا اور جس ریسیپشن سے اُن کو سر کہہ کے مخاطب کیا جاتا تھا، وہی لوگ اُن کو ہیلو یا ڈرائیور کرکے مخاطب کرتے رہے اور پھر ڈرائیور کا گاڑی سے اترنا اور بیک سیٹ کا دروازہ کھول کے کلائنٹ کو اندر بٹھانا اور پھر انتظار، دو دو تین تین گھنٹے، یہ سب طریقے ہیں جو کہ قدرت عطا کرتی ہے اپنے اندر کے بت توڑنے کے لیے اور خدا کا شکر ہے کہ وہ اِس عمل سے سرخرو ہو کے نکلے۔

وہ خود فرماتے ہیں کہ جو کچھ میں نے اِس ایک مہینے میں سیکھا ہے اپنی پوری زندگی میں نہیں سیکھا، تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خود ساختہ طریقے اپنانا آسان ہے لیکن جب سائیں ہاتھ پکڑتے ہیں تو پھر بات کچھ اور ہوتی ہے اور جو معاملات آپ کے وجود پر گزرتے ہیں وہ زیادہ سخت ہو سکتے ہیں۔

لیکن ضرورت ہے یکسوئی کی اِس پروسیس کو اپنانے کی اِس کو سمجھنے کی اور اِس میں سے کامیاب ہو کر نکلنے کی، پھر ہی سونا کندن بنتا ہے۔

اللہ پاک آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Drop Site News, Ki Aik Aham Magar Ghair Musadaqa Khabar

By Nusrat Javed