Nazr e Karam Kaise Ho
نظر کرم کیسے ہو

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں، یہ نگاہِ مردِ مومن کیا ہے، کیا یہ سب کے نصیب میں ہے یا کسی کسی کا نصیب ہے، تو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ یہ کسی کسی کا نصیب ہے۔ نگاہِ مردِ مومن کا فیض ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا، یہ بڑے نصیب کی بات ہے اِسی کو دوسرے الفاظ میں نظر کرم بھی کہا گیا ہے۔
یہاں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیسے پتہ چلے گا کہ کسی شخص پر نظر کرم ہو چکی ہے یا نہیں ہوئی، وہ شخصیات جو کہ زمانے کے دانشور ہیں یا عالم ہیں ضروری نہیں ہے کہ اُن پہ نظر کرم ہو چکی ہو، نظر کرم والے بندے پر خیال اترتے ہیں وہ ہما وقت اللہ تبارک و تعالی اور آپ سرکار ﷺ کے خیال میں رہتا ہے۔
آپ سرکار کا ذکر ہو تو اُس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
قران پاک کی تلاوت سنتے ہوئے یا کوئی کلام سنتے ہوئے رقت طاری ہو جاتی ہے۔
نظر کرم والا بندہ کسی سے بحث نہیں کرتا اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ زیادہ سے زیادہ دوسروں کو وقت دیتا ہے تاکہ ان کے خیالات اور ان کے جذبات کو سمجھ سکے اور اپنی بساط کے مطابق ان کو حل کر سکے۔
نظر کرم والا انسان ہر وقت انسانوں کی خدمت میں حاضر رہے گا ان کی بات سنے گا، مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گا، بحث برائے بحث نہیں کرے گا، اگر کہیں ایسا موقع آ جائے کہ دلیل کے ساتھ وہ بحث جیت سکتا ہو تو وہ دلیل روک لے گا اور دوسرے انسان کو بچانے کی کوشش کرے گا۔
کسی کا غم یا کسی کا دکھ سن کے غمزدہ ہو جائے گا اور پوری کوشش کرے گا کہ اس کے مسائل کے حل کے لیے کچھ عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور اگر عملی اقدامات ممکن نہیں ہیں تو کم از کم ایک احساس ضرور رکھے گا اس کے دکھ کا، درد کا۔
نظر کرم والا انسان محبت میں داخل ہو چکا ہوگا وہ حقیقتوں کی محبت سے روشناس ہو چکا ہوگا اور محبتوں کی طرف سفر اس کی زندگی کا زادِ راہ ٹھہرے گا۔
وہ ہما وقت اِسی کوشش میں ہوگا کہ محبتوں کے سفر کو کیسے بڑھایا جائے اور اپنے باطن میں محبت کی شمع کیسے روشن رکھی جائے۔ مزاروں پر حاضریاں دے گا اور مزاروں پر حاضری دیتے وقت بھی رقت طاری ہو سکتی ہے۔
نظر کرم والے انسان کو کچھ حصہ فقیری کا عطا ہو چکا ہوگا اور فقیر دنیا میں اپنے لیے نہیں جیتا صرف دوسروں کے لیے جیتا ہے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جس انسان پر نظر کرم ہو چکی ہو دنیا سے بے رغبتی اس کا خاصہ ٹھہرے گی۔ دنیا میں اس کا دل نہیں لگے گا، وہ ہما وقت حقیقتوں کی محبت اور حقیقتوں کے خیال میں رہنا چاہے گا اور اپنی زندگی اِسی خیال میں گزارنا چاہے گا، اگر آپ اِس انسان کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں کوئی آیت بیان کریں یا بزرگوں کا کوئی قول بیان کریں تو وہ غور سے سنے گا اور اُس میں چھپے معرفت کے خزانوں کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔
وہ اِن کو سطحی نہیں لے گا بلکہ بہت اہمیت دے گا۔ ہر وقت اپنے باطن کی اصلاح کے لیے تیار ہوگا اگر کوئی غلطی کوتاہی اس کے وجود میں رہ گئی ہے تو وہ اس کو کم کرنے کی یا ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔
نظر کرم ہوئے انسان کا مسئلہ گھر، دولت وغیرہ نہیں ہے اس کا مسئلہ اپنے باطن کی صفائی ہے اُن الائشوں اور غلاظتوں سے جس کا بوجھ دنیا میں رہتے ہوئے انسان پر آن پڑتا ہے۔
وہ ہما وقت اِسی کوشش میں ہوگا کہ اُس کے باطن کی صفائی کیسے ہو اور اِن الائشوں سے کیسے چھٹکارا حاصل ہو۔
بزرگوں کی محفل میں بیٹھنا پسند کرے گا اُن کی باتیں سننا پسند کرے گا صوفیانہ کلام سننا پسند کرے گا، نظر کرم والے انسان کی بڑی نشانی یہ ہے کہ اس کو آنسو عطا ہو چکے ہوں گے اللہ تبارک و تعالی یا آپ سرکار ﷺ کا ذکر سنتے ہوئے اس کی انکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گے۔
اُس کو خیال عطا ہو چکا ہوگا، بلکہ حُسنِ خیال عطا ہو چکا ہوگا، درود شریف پڑھتے ہوئے انکھوں کا نم ہو جانا عرفان کی ابتدا ہے گویا وہ عرفان کے ابتدائی مراحل طے کر چکا گا اور ان کیفیات سے روشناس ہو چکا ہوگا۔
اس کے برعکس ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ بہت سے دانشور اور علماء کرام جن کے پاس کے دنیاوی علم بہت زیادہ ہیں اور وہ علم سے لوگوں کو فیض یاب بھی کرتے رہتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ اُن پہ نظر کرم ہوئی ہو۔
ایسے دانشوروں یا علماء کرام کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ اِس علم کی طاقت سے جو کہ اُن کو حاصل ہو چکا ہوتا ہے اکثر و بیشتر دفاعی پوزیشن میں چلے جاتے ہیں، جس کا مقصد کہ اپنے مرتبے کو محفوظ کرنا ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات میں سب کے لیے نہیں کر رہا ایسے دانشور اور علماء کرام بھی موجود ہیں جِن پہ نظر کرم ہو چکی ہے لیکن اُن کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
ایسے دانشور جب بڑی عمر کو پہنچتے ہیں تو باتوں کو ریپیٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ذہن کو اس طرح ٹیون کر لیتے ہیں کہ وہ ہر ٹاپک پہ بات کر سکتے ہیں ہر عنوان پہ اپنی رائے دے سکتے ہیں لیکن ان کی رائے ذہن کی پہلی سطح تک کی ہی رائے ہوتی ہے وہ مسائل کو ان بنیادوں پر بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتے جن بنیادوں پر اگر باطن روشن ہو تو بیان ہو سکتے ہیں۔
باطن کی روشنائی صرف اور صرف نظر کرم سے ہی ممکن ہے عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ مجالس میں کچھ اور ہوتے ہیں اور نجی محفلوں میں کچھ اور ہوتے ہیں یعنی ظاہر اور ہوتا ہے اور باطن اور ہوتا ہے نظر کرم کا فیض ہی یہ ہے کہ وہ باطن کو ظاہر کے ساتھ لا کے بٹھا دیتا ہے جب تک دونوں ایک جیسے نہ ہو جائیں اس وقت تک بات نہیں بنتی۔
اب یہاں یہ سوال ذہن میں آئے گا کہ نظر کرم کیسے ہو تو یہ صرف عطا ہے آپ اپنی کوشش جاری رکھیں دعا کرتے رہیں حقیقتوں سے محبت کرتے رہیں اپنے باطن کی صفائی جاری رکھیں انشاءاللہ تعالی نظر کرم ہوگی اور باطن روشن ہو جائے گا۔
اللہ تعالی آپ کے لیے آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔