Muhabbat e Majaz Aur Muhabbat e Haqeeqat
محبت مجاز اور محبت حقیقت

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر، محبت کا ماخذ احساس ہے محبت مجاز بھی ہے اور محبت حقیقت بھی، مجاز بذات خود ایک حقیقت ہے۔ مجاز سے مراد ہے جو لوگ آپ کی اُنسیت کے دائرے میں شامل ہیں، جیسے ماں باپ، بہن بھائی، اولاد اور سب سے نمایاں مرشد۔ مرشدِ کامل کے بغیر سفر محبت ممکن نہیں، مرشد سے محبت دراصل حقیقتوں سے محبت ہی ہے، مرشد ہی آپ کو حقیقتوں سے روشناس اور آگاہی کرواتا ہے، مرشد ہی مجاز کی محبت کو حقیقت کی محبت میں ضم کروا سکتا ہے۔ مجاز سے محبت کا مطلب ہے کہ ایک انسان کے آگے اپنے آپ کو سرنڈر کر دینا اور حقیقت سے محبت کا مطلب ہے تمام انسانوں کے آگے سرنڈر کرتے ہوئے عشق حقیقی کی منزل تک پہنچنا۔
مجاز سے محبت دراصل حقیقت سے محبت ہی ہے (ہر چہرے میں نظر آتی ہے یار کی صورت) مجاز کی محبت میں رقیب کی موجودگی گوارا نہیں ہوتی۔ حقیقی محبت میں رقیب کا ہاتھ پکڑ کر حقیقتوں کے سفر میں اُس کے ساتھ شامل ہونا ہے، اگر کوئی چہرہ بار بار آپ کو نظر آرہا ہے تو محبت ہو سکتی ہے، محبت بہت ہی پاک جذبہ ہے اِس میں وجودی عمل دخل شامل نہیں ہے، یہ ایک روحانی رابطہ ہے جو عشق حقیقی تک پہنچا سکتا ہے۔
عشق حقیقی تک پہنچانے کے لیے ایک استاد یا مرشد کی ضرورت ہوتی ہے رہنمائی کے بغیر یہ منازل طے نہیں ہو سکتیں، اگر آپ کو دنیا میں کسی سے محبت ہوگئی ہے تو مرشد اِس احساس کو حقیقت کی محبت تک لے جاتا ہے اور جو لوگ بے مرشد ہوتے ہیں وہ مجاز کی محبت تک ہی رہ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ ڈپریشن کی صورت میں نکلتا ہے، کیونکہ اتنی محبت اور نسبت صرف اللہ تبارک و تعالی اور اُس کے محبوب ﷺ سے ہی ہونی چاہیے، تو ڈپریشن ایک سزا ہے اُن لوگوں کے لیے جو کہ مجاز کی محبت کو حقیقت کی محبت تک نہیں پہنچا پاتے۔
دنیاوی محبت میں عمر کی کوئی قید نہیں ایک بچے سے لے کر ستر اسی سال تک کے انسان تک ایک ہی واردات اور ایک ہی جیسے واقعات گزرتے ہیں، یہ بھی محبت کا ایک معجزہ ہے، محبت میں مبتلا شخص کو ہر واقعہ اور ہر قصہ کم و بیش اپنا ہی محسوس ہوتا ہے اور کسی اور کے واقعات کو وہ اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے۔ محبت نام ہے رابطے کا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی سے محبت ہوگئی ہے تو آپ کا اُس سے رابطہ نہ ہو، رابطے کے لیے اُس شخص کا دنیا میں موجود ہونا بھی ضروری نہیں ہے، یہ خیال کا خیال سے رابطہ ہوتا ہے، اگر آپ کو محبت ہوگئی ہے تو لازم ہے کہ محبوب کو بھی اِس کا پتہ ہوگا، کیونکہ یہ عطا ہی اُس کی ہے۔
محبت میں ایک دوسرے کے حال کی خبر معلوم ہوتی ہے، محبت میں الہام بھی ہوتے ہیں لیکن یہ دیکھنا پڑے گا کہ جذبہ محبت کتنا پاک و صاف اور دنیاوی الائشوں سے دور ہے، المیہ محبت یہ ہے کہ یہ لاحاصل رہتی ہے، حاصل ہو جائے تو محبت نہیں رہتی، یوں کہیے کہ محبت کی وہ شدت نہیں رہتی۔ میرے مطابق حاصل کو محبت کہا ہی نہیں جا سکتا اگر محبت لا حاصل ہے تو اس کا نتیجہ غم اداسی اور تڑپ کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
محبوب سے بھی خوبصورت محبوب کی یاد ہوتی ہے، محبوب کی یاد میں بہت سے معجزے دیکھے گئے ہیں، جو ادبی شاہکار تخلیق ہوئے ہیں وہ محبوب کی تڑپ اور یاد میں تحلیق ہوئے ہیں، حضرت واصف صاحبؒ کا ایک جملہ ہے کہ محبوب کا سب سے خوبصورت تحفہ فراق ہے، اُس کا نتیجہ غم کی صورت میں نکلتا ہے، غم ایک الگ داستان ہے ایک الگ فلسفہ ہے اور غم والوں کے الگ درجات ہیں، غم کے اپنے معجزات ہیں غم نصیب والوں کو ملتا ہے اور جب غم زدہ انسان رضا اور تسلیم کا دامن نہیں چھوڑتا تو غم رفعت کی منزلیں طے کروا دیتا ہے، غم میں سجدہِ شکر انسان کو سرفراز کر دیتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کو محبت اور آسانیاں عطا فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔