Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Mubarak Ho Shahadat Ho Gai

Mubarak Ho Shahadat Ho Gai

مبارک ہو شہادت ہو گئی

بے شمار درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر۔

انسان کے پاس سب سے قیمتی متاع اُس کی اپنی جان ہے، اِس سے زیادہ قیمتی اور کوئی چیز بھی انسان کے پاس نہیں۔ اگر کسی کو کوئی ایسی جان لیوا بیماری لاحق ہوگئی ہے تو وہ چاہے گا کہ اِس کے پاس جتنی دولت ہے لے لی جائے اور اُس کی بیماری ٹھیک کر دی جائے۔

جان تو نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند کو بھی اتنی ہی عزیز ہے، آپ اُس عشق و محبت کا اندازہ کریں جس عشق میں عاشق اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، اپنی سب سے قیمتی متاع قربان کرنے کے لیے راضی ہو جاتا ہے، اِسی کو شہید کہا گیا ہے اور یہ بڑی سعادت کی بات ہے، بڑی شہادت کے زمرے میں آتا ہے، ہمارے دین میں اِس کا بڑا مقام ہے، نبیوں، پیغمبروں، بزرگوں اور صحابہ نے بھی شہید ہونے کی دعائیں مانگی ہیں۔

بڑی شہادتوں کا تو دنیا کو پتہ چل جاتا ہے، لیکن کچھ شہادتیں چھوٹی ہوتی ہیں، چھوٹی شہادتوں کا گواہ صرف رب تعالی کی ذات ہے یہ وہ شہادتیں ہیں جن میں ایک انسان اپنا تکبر اپنی انا اپنے شوق، منسب، نفس، غرض کے دنیا کی تمام رعنائیاں قربان کر دیتا ہے، اسی کو تزکیہ نفس بھی کہا جاتا ہے، ان چھوٹی شہادتوں کا بھی بہت مقام ہے، ان شہادتوں کے طفیل علم لدنی عطا کیا جا سکتا ہے، تزکیہ نفس کا ایک مقام ایسا آتا ہے کہ علم عطا ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس میں کسی مطالعہ یا مشاہدے کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ خالصتاً عطائے ربی ہے۔

انسان اپنا نفس قربان کر دیتا ہے رب تعالی کی رضا کے لیے اور رضا و تسلیم کا پیکر بن جاتا ہے، دنیا سے بے رغبتی، بے اعتنائی طبیعت پہ غالب آ جاتی ہے، دنیا کو حکم ہو جاتا ہے کہ میرے بندے کے لیے بے رنگ ہو جا، بے ذائقہ ہو جا، کوئی رعنائی نہ رہے اُس انسان کے واسطے جس نے اپنا وجود پیش کر دیا ہے قربانی کے لیے، شہادت کے لیے، قربان کیا ہوا شخص دنیا کی اذیتیں اوڑھ لیتا ہے اور زبان پر گلا تک نہیں ہوتا، تسلیم و رضا کا پیکر بنا رہتا ہے، دنیا اُس کو نہیں سمجھ سکتی کہ وہ محبت میں داخل ہو چکا ہے اور جو شخص محبت میں داخل ہو چکا ہو اس کا کچھ بھی نہیں بچتا ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے کہ اذیت ہی داد ہے، یہ پریشانی یہ ڈپریشن، یہ تکلیف، مبارک ہو، بھلا رب اس کا کچھ رہنے دیتا ہے اپنے سوا جس کو کہ رب سے محبت ہوگئی ہو۔

اِس قربانی کو اِس شہادت کو چھپانے کا حکم ہے، ظاہر کرنے کا حکم نہیں ہے، یہ خالصتاً ربِ کریم اور اُس انسان کا معاملہ ہوتا ہے، لیکن کچھ جگہ حکم ہو جاتا ہے کہ فقیر عیاں ہو جائے بلکہ حلقِ خدا کی ہدایت کے لیے رب کریم کچھ ذمہ داریاں سونپ دیتے ہیں۔

حضرت واصف با صفا سرکارؒ کا فرمان ہے کہ جب دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ ایک فقیر اُن کے درمیان موجود ہے اور دنیا اُس کو پہچاننا شروع کر دیتی ہے تو پھر اُس کو حکم ہوتا ہے کہ پردہ فرما جائے۔

بانو آپا فرماتی ہیں، کہ جب حضرت واصف سرکارؒ، زیرِ علاج تھے ہسپتال میں اپنی زندگی کے آخری ایام میں تو میں اُن کی خبر گیری کے لیے حاضر ہوئی، میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان اُن کے ہاتھ چوم رہے ہیں، تو میں وہیں سمجھ گئی کہ اُن کے پردہ فرمانے کا وقت قریب آ چکا ہے۔۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Jang Ke Almiye

By Mubashir Ali Zaidi