Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Masrofiyat Ke Aqoobat Khane

Masrofiyat Ke Aqoobat Khane

مصروفیت کے عقوبت خانے میں

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

ہم جس عہدِ کربلا سے گزر رہے ہیں یہاں مصروفیت ہر انسان کی زندگی کو کھائے جا رہی ہے، آج کا انسان بہت زیادہ مصروف ہے، اِس دور کے انسان کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ رک کر سوچے کہ اِس مصروفیت کا کیا اختتام ہے۔

یہ جو تھوڑی سی زندگی ہمیں عطا کی گئی ہے اِس میں کتنا مصروف ہونا ہے اور ان کوششوں اور مصروفیات کا کوئی اختتام بھی ہے، اِن کی کوئی منزل بھی ہے کہ صرف ایک دوڑ لگی ہوئی، اِس سفر کا کیا فائدہ جس کی کوئی منزل ہی نہیں۔

سفر تو وہ اختیار کرنا چاہیے جس کی کوئی منزِل مقصود ہو جس منزل پر پہنچ کر مسافر مسافتوں کی تھکن بھول جائے اور منزل حاصلِ سفر ٹھہرے، یہاں تو نہ سفر کا پتہ ہے نہ منزل کا پتہ ہے بس چلتے چلے جانا ہے۔

اندھا دھند آرزوئوں اور خواہشوں میں قید، آج کا انسان مصروف ہونے کو بہت ہی اہم سمجھتا ہے حالانکہ یہاں ہی بنیادی غلطی ہو رہی ہے، تھوڑی دیر رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ یہ دولت کے ڈھیر کہیں آپ کو خدا سے غافل تو نہیں کر رہے، کہیں آپ نے دولت کو تو خدا نہیں سمجھ لیا، کیونکہ جب دولت آتی ہے تو اپنے ساتھ غریب ہونے کا خوف بھی لے کر آتی ہے اور انسان اِسی خوف کے تحت دولت پہ دولت کماتا چلا جاتا ہے۔

آج کے دور کا انسان دولت کے انبار اکٹھے کرتا چلا جا رہا ہے لیکن اس کو پتہ ہی نہیں کہ دل کا زندہ ہونا کیا ہے، آج کے انسان نے عالی شان گھر تو بنا لیے اور اِن میں بے بہا روشنیاں تو جگمگا رہی ہیں، لیکن دل بجھ گئے، دل مردہ ہو گئے۔

انسانی وجود ایک راز ہے جو اللہ تعالی نے انسان کو عطا کیا ہے، بزرگ کہتے ہیں کہ خود کو پانا ہی خدا کو پانا ہے، آپ کے اندر وہ کیفیات موجود ہیں جو آپ کو خدا تک رسائی دے سکتی ہیں، اِن کیفیات کو کھوجنے کی ضرورت ہے۔

قدرت نے جو نظارے، ستارے چاند اور سورج عطا کیے ہیں ان کا کچھ مقصد ہے، انسانی وجود پر اِن کے بہت گہرے اثرات ہیں، چاند کی چاندنی راتوں کو انسانی وجود کو کیا گہرائیاں اور پنہائیاں عطا کر سکتی ہے، اِن کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔

کبھی آپ سمندر کے کنارے جائیے اور سمندر کی لہروں کا مشاہدہ کیجئے اِن کا اتار، چڑھاؤ آپ کے وجود کو گہرائی اور وسعت بخش سکتا ہے، یہ نیلا اسمان اُس پہ پھیلے ہوئے گہرے بادل یہ کالی گھٹائیں یہ بارش یہ تمام اشیاء انسانی وجود پر اثرات رکھتی ہیں۔

اہل نظر کہ ہاں اِن کی کچھ اور ہی وقعتِ ہے وہ اِن چیزوں سے کچھ اور ہی مشاہدات میں مشغول ہو جاتے ہیں، یہ خیال کیا ہے، حُسنِ خیال کیا ہے، خیال عطا ہونا کیا ہے۔

مرزا غالب نے فرمایا تھا کہ

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہے تصورِ جاناں کیے ہوئے

تو تصورِ جاناں کے لیے فرصت کے لمحات چاہئے، کبھی اپنی مصروفیات سے وقت نکالیے اور سوچیے کہ محبت کیا ہے، محبت عطا ہونا کیا ہے، یہ غم کیا ہے، یہ خوشی کیا ہے، یہ بے چینی، اضطراب کیوں ہے، یہ آنسو کیا ہیں کیوں پلکوں پہ رواں ہو جاتے ہیں، آنسو ایک بہت بڑا راز ہیں، آنسو غم کے بھی ہو سکتے ہیں اور خوشی کے بھی ہو سکتے ہیں، لیکن جہاں غم اور خوشی دونوں ہی نہیں ہیں پھر بھی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اسے رقت کہتے ہیں، یہ کیوں ہو جاتی ہے، کبھی اِس کے بارے میں بھی غور کریں۔

آپ تبھی اِن کے بارے میں غور کر سکیں گے جب آپ مصروفیت کے عقوبت خانے سے باہر نکلیں گے اور فرصت کے لمحات کو اپنے لیے میسر کریں گے، تھوڑا وقت اپنے آپ کے لیے بھی نکالیے، خود کا مشاہدہ کیجئے خود کو کھوجنے کی کوشش کیجیے، خودی کے راز کو پانے کی کوشش کیجیے، کیوں کہ خود کو پانا ہی خدا کو پانا ہے۔

انسانوں سے رابطہ رکھیے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کیجئے چہروں پہ لکھے سوالوں کو سوال ہو جانے سے پہلے حل کرنے کی کوشش کیجیے، یادوں کو پہچانیے، یادوں کے فیض کیا ہو سکتے ہیں یادوں کے طفیل اپنے گزرے ہوئے بزرگوں سے کس طرح رابطہ ممکن ہے، اِس عمل کو پہچانیے۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam