Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Khayal Waham Na Ho Jaye

Khayal Waham Na Ho Jaye

خیال وہم نہ ہو جائے

بے شمار درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر۔

انسانی وجود میں خیال کی بہت اہمیت ہے یہ خیال ہی ہے جو کہ آپ کو حقیقتوں تک رسائی دے سکتا ہے، خیال عطا ہے ربِ ذوالجلال کی اِس کا کوئی فارمولا نہیں بنایا جا سکتا، بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر آپ کو اللہ تبارک و تعالی یا اُن کے محبوب حضرت محمد ﷺ کا خیال عطا ہو چکا ہے تو یہ خیال رب کی طرف سے ہی ہے، اِس میں انسانی کوشش کا عمل دخل صرف اتنا ہے کہ آپ کو وہ ورد، وظیفے، عبادات، مجاہدے، مشاہدے کروانے کی مشق کروائی جاتی ہے، جس سے کہ اللہ تبارک و تعالی یا اُن کے محبوب ﷺ کی نظرِ کرم ہو جائے اور یہ خیال عطا ہو سکے۔

بہت ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو کہ خیال عطا ہو چکے ہیں، اگر کسی بھی دنیاوی معاملے میں رب تعالی کا خیال آ رہا ہے تو وہ رب کی طرف سے ہی عطا ہے اور اگر کسی نفسانی خواہش کا خیال ہے وہ نفس کا دخل ہے۔

بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ صوفیوں، درویشوں اور بزرگوں کو خیال عطا ہو چکا ہوتا ہے لیکن اگر دنیاوی معاملات اُن پہ غالب آ جائیں کسی بھی وجہ سے تو وہ خیال محو ہو سکتا ہے، چھن سکتا ہے۔ اس لیے فقیری یا درویشی بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک سرکس میں کھلاڑی ایک باریک سے رسے پر چل رہا ہے، ایک بیلنس رکھ کے کہ کہیں دائیں یا بائیں نہ گر جائے۔

ہر وقت اِس چیز کو سنبھال کے چلنا پڑتا ہے، اِسی سلسلے میں ایک واقعہ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ سے منسوب ہے کہ کچھ دنیاوی معاملات اُن کی طبیعت پر غالب ہونے کی وجہ سے خیال اُن سے چھین لیا گیا، بعض مورخ لکھتے ہیں کہ اُن کے مرشد، سرکار سے ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ تمہیں بتائیں کہ ڈاکہ کیسے ڈالتے ہیں اور پھر اُن کے خیال کو وہم کر دیا گیا، جس سے کہ خواجہ نظام الدین اولیاء بہت ہی اضطراب اور پریشانی میں گر گئے اُن کے مرید خاص حضرت امیر خسروؒ نے اُن کی مدد فرمائی اور جن بزرگوں نے سرکار نظام الدین اولیاء رحمت اللہ علیہ سے خیال چھین لیا تھا ان کو راضی کیا گیا، رباب سیکھ کر، حضرت امیر خسروؒ نے رباب سیکھا کیونکہ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے بزرگوں کو رباب پسند تھا، یعنی حضرت امیر خسرو رحمت اللہ علیہ نے خواجہ نظام الدین اولیاء کی مدد فرمائی تاکہ اُن کو خیال واپس عطا ہو سکے۔

تصوف میں کہا جاتا ہے کہ یہ 14 سال کی سزا ہوتی ہے اگر آپ سے خیال چھین لیا جائے تو پھر 14 سال کی سزا کے بعد خیال دوبارہ عطا ہو سکتا ہے۔

خیال کی سزا خیال چھن جانے کی صورت میں ملتی ہے، تو جن لوگوں کو خیال عطا ہو چکے ہیں اُن کو اِس کی اہمیت کا پتہ ہے کہ سب سے بڑا نقصان خیال کا چھن جانا ہے، خیال کا محو ہو جانا ہے، یعنی خیال کو وہم بنا دیا جاتا ہے اور یہ اُسی صورت میں ہوتا ہے جبکہ دنیاوی معاملات خیال پہ غالب آ جائیں، خیال کو قائم رکھنے کے لیے دنیا سے بے رغبتی ضروری ہے اگر آپ پر دنیاوی ضرورتیں غالب ہیں تو پھر خیال عطا نہیں ہو سکتا اور خیال عطا ہو چکنے کے بعد اگر دنیا سے رغبت رکھیں گے تو پھر خیال چھن سکتا ہے۔

یہ بہت ہی دردناک اور کربناک معاملہ ہے، جب خیال چھن جائے تو یہ بہت ہی بڑا نقصان ہے، کیونکہ جو درد و غم کے سلسلے نسبتوں کے سلسلے محبتوں کے سلسلے منسلک ہوتے ہیں وہ صرف اور صرف خیال کی وجہ سے ہی ہیں اور جب خیال ہی کو محو کر دیا جائے تو وہ سلسلے منقطع ہو جاتے ہیں۔

اسی لیے ایک رہبر ایک مرشد کا ہونا بہت ضروری ہے جو کہ آپ کے خیال کی حفاظت فرمائے، مرشد اور مرید کا رابطہ بھی ایک خیال ہی کے ذریعے ہوتا ہے، آپ یوں سمجھ لیجئے جیسے کہ ایک سافٹ ویئر انسٹال ہوگیا ہے مرید کے دل میں اور اِس سافٹ ویئر کے ذریعے مرشد مرید کو گائیڈ کرتے رہتے ہیں، اُن کو خیال باہم پہنچاتے رہتے ہیں، یہ جو آستانے اور درگاہیں ہیں یہ دراصل خیال ہی کی فیکٹریاں ہیں، ہر وقت خیال جاری ہو رہا ہے۔

بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کو کہ یہاں لکھا جا سکتا ہے، کہ آپ کے ذہن میں کوئی خیال جان گزین ہوتا ہے اور جب آپ اپنے مرشد سے ملنے جاتے ہیں وہ اُسی خیال سے متعلق بات کرتے ہیں اُسی خیال کا ذکر کرتے ہیں، یہ کیسے ہے کیوں ہے جن لوگوں نے یہ کیفیات دیکھی ہیں اُن کو معلوم ہے کہ ایسے ہوتا ہے، ہو رہا ہے، ہو سکتا ہے۔

دعا بھی ایک خیال ہی ہے، خیال سے آپ کا رابطہ اللہ تبارک و تعالی کی ذات سے ہو سکتا ہے، ضرورت ہے، یقین کی، کہا جاتا ہے کہ آج کے دور میں صاحبِ یقین ہی صاحبِ کرامت ہے، تو آپ سے عرض یہ کرنی تھی کہ ہر وقت اپنے مرشد سے اپنے پیر سے منسلک رہیں، اپنے خیال کو کمزور نہ ہونے دیں، ایک دفعہ نسبت بنا لینے کے بعد جب نسبت توڑتے ہیں یا کمزور کرتے ہیں تو پھر انسان کہیں کا نہیں رہتا۔

پہلے سوچ سمجھ لیں ساری تحقیق کر لیں، لیکن جب منسلک ہو جائیں کسی ذات کے ساتھ تو پھر پیچھے نہ ہٹیں۔

اللہ تبارک و تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari