Tuesday, 22 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Khayal Aik Haqeeqat

Khayal Aik Haqeeqat

خیال ایک حقیقت

کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذات اقدس پر۔

ایک خیال ہی ہے جس سے ہم زندگی کے معمولات کو چلاتے ہیں۔ نیت بھی خیال ہی کا دوسرا نام ہے۔ قران پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اگر یوں کہا جائے کہ ہمارے اعمال ہمارے خیال کے تابع ہیں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔

یہ خیال کہاں سے آتا ہے، انسانی وجود میں اس کا در انا کیسے ہے، کیوں ہے۔ خیال انسانی وجود کا اپریٹنگ سسٹم کہا جا سکتا ہے۔ تمام اعمال خیال ہی سے جنم لیتے ہیں اور خیال ہی ان کو کنٹرول کرتا ہے۔ خیال رب ذوالجلال کی عطا ہے۔

اگر یوں کہا جائے کہ حسن خیال رب ذوالجلال کی عطا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ حضرت انسان ہمہ حال اپنے خیال سے بندھا ہوا ہے اگر آپ کو کسی سرکس میں جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ دیکھیں گے کہ سرکس کے ہاتھی ایک چھوٹے سے کھونٹے سے بندھے ہوتے ہیں اگر وہ چاہیں تو اس کمزور سے کھونٹے کو اپنے وجود کی طاقت سے اکھاڑ کے آرام سے آزاد ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ جب ایک ہاتھی چھوٹا بچہ ہوتا ہے تو اسے اس کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اس وقت اس کا وجود چھوٹا ہوتا ہے اور وہ اس کھونٹے کو توڑ نہیں سکتا، وقت کے ساتھ جب ہاتھی کی عمر بڑھتی ہے تو اس کا وجود بھی بڑھتا رہتا، ہے لیکن اس کا خیال اسے وہی سگنل دے رہا ہوتا ہے کہ وہ بھاری بھرکم ہاتھی اس کھونٹے کو توڑ نہیں سکتا، حالانکہ اس کے وجود میں اتنی طاقت آچکی ہوتی ہے اور وہ یہ عمل آرام سے کر سکتا ہے۔

انسان کا بھی یہی حال ہے گناہوں میں گرفتار انسان کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اس گناہ کے کھونٹے سے جان نہیں چھڑوا سکتا حالانکہ اگر وہ ہمت کرے تو آسانی سے اس سے آزاد ہو سکتا ہے۔

ہمارے دین میں استغفار کا ورد دیا گیا ہے اس خیال سے آزاد ہونے کے لیے۔ ایک مرشد اور مرید کا رابطہ خیال کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ مرشد اپنے مرید میں خیال جانگزین کر دیتا ہے جو اس کو گناہوں کی دلدل میں جانے سے روکتا ہے۔ یہ جو آستانے ہیں یہ دراصل خیال ہی کی فیکٹریاں ہیں ہر وقت خیال کی ٹرانسمیشن ہو رہی ہے۔

آپ یوں سمجھ لیں کہ مرشد مرید میں ایک سافٹ ویئر انسٹال کر دیتا ہے جو کہ خیال سے منسلک ہوتا ہے اور خیال کا خیال سے رابطہ رہتا ہے۔ بہت سے واقعات بیان کیے جا سکتے ہیں جن سے اس بات کا مشاہدہ ممکن ہے۔ مجھے اتفاق ہوا ایک محفل میں جانے کا۔ میں مرشد سرکار کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں ایک مرید بھی سلام عرض کرنے کے لیے موجود تھا باتوں باتوں میں سرکار نے ایک شعر پڑھا اپنی بات کو آگے بڑھانے کے لیے تو مرید نے عرض کی کہ حضور یہ شعر تو کل سے میرے خیال میں تھا آپ نے ذکر فرما دیا۔

کوئی الجھن یا کوئی بات مرید کے ذہن میں ہوتی ہے جو کہ مرشد کی زبان پر آجاتی ہے تو یہ خیال کا خیال سے رابطہ ہے۔ یہ رابطہ موت کے بعد بھی ممکن ہے۔۔

محبت میں بھی خیال ہی رابطہ ہے ایک دوسرے کا خیال ایک نسبت کے ساتھ، تعلق کے ساتھ رہتا ہے اور محب کی خبر محبوب تک پہنچتی رہتی ہے۔ محبت نام ہی رابطے کا ہے۔ محبوب چاہے ظاہری دنیا میں ہو یا نہ ہو۔

آپ سرکار ﷺ کا خیال ایک حقیقت ہے، خواب میں بھی آپ سرکار ایک حقیقت ہیں، اگر آپ کو درود شریف پڑھتے ہوئے سرکار کا خیال آگیا ہے تو یقین کر لیں کہ یہ انہی کا خیال ہے، اس میں کوئی ملاوٹ یا کوئی شک کی گنجائش نہیں، خواب میں جن لوگوں کو زیارت نصیب ہوئی ہے تو خواب میں بھی سرکار کی زیارت ایک حقیقت ہے اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔

درود شریف پڑھتے ہوئے رقت طاری ہونا اشارہ ہے کہ درود شریف قبول ہوگیا۔ آپ صالح خیال کو اپنی یادداشت کا حصہ بنا لیں تاکہ آپ کو عمل کرنے سے پہلے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خیال کو نہ صرف یادداشت میں شامل کر لیں بلکہ اس کو اپنی ذات کا حصہ بنا لیں تاکہ جب بھی عمل کا وقت آئے آپ کو سوچنا نہ پڑے اور خیال اسی طرح عمل کروائے جیسے کہ وہ آپ کے وجود میں جانگزین ہو چکا ہے، اگر صالح خیال آپ کی یادداشت میں محفوظ نہیں ہے تو ہر عمل الجھن کا شکار ہوگا۔

صالح خیال آپ کی ان عادتوں کو ترک کروا سکتا ہے جنہوں نے آپ کی عاقبت خراب کرنی ہے۔

کیا خیال کنٹرول ہو سکتا ہے؟ نماز میں مختلف خیالات آتے ہیں اور حضوری نصیب نہیں ہو پاتی، اس کا حل کیا ہے، اس کا حل یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں اگر مختلف خیالات آ رہے ہیں جیسے گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور دوسرے گھر کے اور باہر کے مسائل تو یہ ان سب خیالوں کو ایک خیال کے تابع کر لو۔ وہ خیال ہے آپ سرکار ﷺ کا یہ بات اس طرح سمجھائی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کو اطلاع مل جائے کہ آپ کے گھر میں خدانخواستہ آگ لگ گئی ہے تو سب خیال ختم ہو جائیں گے اور ایک ہی خیال آپ کے ذہن میں جانگزیں ہو جائے گا، تو سرکار کے خیال کو اتنا زم کر لیں اپنے خیال میں کہ دوسرے تمام خیال اس کے تابع ہو جائیں پھر مشکل نہیں رہے گی۔

یہ کام ہوگا محبت سے نسبت سے مرشد کی نگاہ سے اس کے فیض سے۔ ہمارے لاہور میں ایک معروف مدرسہ ہے جامعہ نعیمیہ اس کے سربراہ مفتی محمد حسین صاحب کی بیماری کی وجہ سے ایک ٹانگ خراب تھی، ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ جان بچانے کے لیے آپ کی ٹانگ کاٹنی پڑے گی، اپریشن کا ٹائم فکس ہوگیا، بے ہوش کرنے کے لیے ڈاکٹر آئے تو آپ نے بے ہوشی کا انجکشن لینے سے انکار کر دیا، آپ نے فرمایا کہ ایسے ہی اپریشن کر دو، ڈاکٹر پریشان ہو گئے انہوں نے کہا کہ جناب مشکل ہے ران کاٹنی پڑے گی اور پھر ہڈی بھی کاٹنی پڑے گی تکلیف ہوگی تو انہوں فرمایا کہ بس کر دو، میرا منہ ایک سفید کپڑے سے ڈھانپ دو، ڈاکٹروں نے ایسا ہی کیا، اپریشن کے دوران آپ کچھ ورد کرتے رہے اور ڈاکٹر اپریشن کرتے رہے، اپریشن مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹرز نے کپڑا ہٹایا تو آپ نے فرمایا کہ جی ہوگیا اپریشن، ڈاکٹر بولے جی ہاں آپ نے کہا آپ کا بہت شکریہ۔ یہ واقعہ خیال کو کنٹرول کرنے کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے کہ کیسے مفتی صاحب نے اپنے خیال کی طاقت سے چھوٹے خیال کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔

اپنی روح کی خوشبو پانے کے لیے بھی درویش، رشی منی مراقبے کا سہارا لیتے ہیں اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ خیالات کو کنٹرول کیا جائے تاکہ وہ اپنے اندر کے اندر کی خوشبو کو پا سکیں۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Wo Jo Sirf Khud Nahi, Hazaron Auraton Ka Hosla Hai

By Muhammad Saqib