Hadis Se Qadeem Tak
حادث سے قدیم تک

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پہ۔
اِس دنیا میں ہر انسان کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کر جائے کوئی ایسی ایجاد، کوئی ایسی تحریر، کوئی ایسا علم دنیا کو عطا کر جائے کہ اُس کا نام اُس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہے اور اُس کے افکار و خیالات سے دنیا فیض یاب ہوتی رہے اور اُس کا نام تاریخ کے اوراق میں زندہ رہے۔
یہ اپنا وجود یا اپنا نام زندہ رکھنے کی ایک ادنی سی کوشش ہے جو کہ ہر انسان کی خواہش رہتی ہے، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی ایسا انسان نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے جو کہ اپنے دنیاوی کام کی وجہ سے اپنا وجود اپنے مرنے کے بعد بھی برقرار رکھ سکے۔
بہت سے دانشور فلاسفر آئے اور گزر گئے اُن کے نام کتابوں کے اوراق میں تو موجود رہے لیکن وہ اپنے کام سے انے والے انسانوں کو اُس طرح فیض یاب نہیں کر پائے، فیض دینے کی کوششیں تو بہرحال رہیں لیکن وہ ایک محدود وقت تک ہی کارگر رہیں اور اس کے بعد وقت کی دھول نے ان کو ماند کر دیا۔
انسان آج بھی اِس کھوج میں ہے کہ کیسے فنا سے نکل کے بقا کا سفر کیا جائے یہ دنیا جو کہ فانی ہے اِس میں سے کیسے اپنا وجود بچا کر لافانی کے ساتھ جوڑا جائے، اس کے لیے سب سے پہلے اُس ذات کو سمجھنے کی کوشش کرنی پڑے گی جو کہ قدیم ہے۔
قدیم کے لغوی معنی پرانے کے ہیں، لیکن یہاں قدیم سے مراد ہے وہ ہستی جو کہ وقت پیدا ہونے سے بھی پہلے موجود تھی اور وقت کے ختم ہو جانے کے بعد بھی موجود رہے گی۔
وقت پر بھی بہت سے دانشوروں نے رائے زنی کی ہے، اگر آپ ذرا غور کریں تو وقت نام ہے سورج کے ساتھ چلنے کا سورج کے ابھرنے اور ڈوبنے سے ہم دن اور رات کا تعین کرتے ہیں اور وقت کو انہی معنی میں استعمال کرتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں، یہاں تک تو وقت کی تعریف سمجھ آتی ہے لیکن اِس سے آگے یعنی سورج سے آگے کائنات جو کہ اندھیرے میں ڈوبی ہے اِس کو آپ کیسے دیکھیں گے، کیا وہاں بھی وقت موجود ہے، زمانہ موجود ہے، اس سوال کا جواب شاید انسان کے بس میں نہیں ہے۔
تو وقت قدیم نہیں ٹھہرا وقت بھی ختم ہو جانا ہے، قدیم صرف اللہ تبارک و تعالی کی ذات ہے جو کہ کائنات بننے سے پہلے بھی موجود تھی اور کائنات بننے کے بعد بھی موجود رہے گی اور قدیم کا ہر عمل قدیم ہی ہے۔
اگر اللہ تبارک و تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ سرکار ﷺ پر درود پڑھو فرشتے بھی درود پڑھ رہے ہیں تو یہ درود شریف کا پڑھنا بھی قدیم ہی ہے، یہ کائنات بننے سے پہلے سے چل رہا ہے اور کائنات بننے کے بعد تک چلتا رہے گا کیونکہ اللہ تبارک و تعالی کا کوئی عمل درمیان سے شروع نہیں ہوتا، اس عمل کا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقبل وہ تو بس قدیم ہے کن فیکون سے بھی پہلے کی بات ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ سرکار دو عالم سرور کونین ﷺ کی ذاتِ مبارکہ بھی قدیم ہی ٹھہری، لافانی ہی ٹھہری، وہ کس صورت میں لافانی ہے انسانی ذہن یہ بات نہیں سمجھ سکتا، جیسے اللہ تعالی کا وجود اور اللہ تعالی کا ہونا نہیں سمجھ سکتا۔
انسانی عقل کو اتنی رسائی نہیں عطا کی گئی وہ ان معاملات کو سمجھ سکے، حکم کی تعمیل ہونی چاہیے، جیسے ارشادات قرآن مجید میں ہیں اِن کے مطابق۔
تو حاضر اور ناظر کا مسئلہ یہاں سمجھ میں آ جاتا ہے، کہ آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کائنات بننے سے پہلے موجود تھی اور آج بھی موجود ہے اور یہ وقت و کائنات ختم ہونے کے بعد بھی موجود رہے گی۔
اگر آپ غور کریں تو اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں کہیں نہیں فرمایا کہ آپ سرکار ﷺ نبی تھے، ارشادات یہی ہیں کہ سرکار نبی ہیں آج بھی موجود ہیں، تو آپ یہ جو درود شریف پڑھتے ہیں یہ اُن تک پہنچتا ہے اور وہاں سے جوابات بھی آتے ہیں اب آپ پوچھیں گے کہ جوابات کیسے آتے ہیں، تو بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اگر درود شریف کی کیفیت میں آپ پہ رقت طاری ہوگئی ہے اور آنسو رواں ہو گئے ہیں تو آپ سمجھیں کہ درود شریف کا جواب آگیا ہے۔
ایک اور مسئلہ جو انسان کو ہمیشہ درپیش رہا ہے وہ اُس کا خود کا حادث ہونا ہے یا قدیم ہونا ہے، کیا انسان ختم ہو جائے گا اس کو جو 50-60 سال کی زندگی عطا کی گئی ہے اِس کے بعد اِس کا کوئی وجود نہیں رہے گا۔
اپنے وجود کو فانی یا لافانی کرنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے، اگر آپ دنیا دار بن کے رہ جائیں گے تو پھر موت آپ کی منتظر ہے، حقیقتوں تک رسائی ممکن نہیں ہوگی، لیکن اگر آپ دنیا کے چنگل سے نکل جائیں گے اور حقیقتوں کی طرف سفر شروع کر دیں گے تو پھر آپ قدیم کے ساتھ قدیم ہو سکتے ہیں، قطرہ قلزم میں ملے تو قلزم ہو جاتا ہے، دریا سمندر میں ملے تو سمندر ہو جاتا ہے، اِسی طرح حادث قدیم سے ملے تو قدیم ہو جائے گا۔
تو اِس زندگی کو ایک سفر سمجھیے، پہلے آپ قدیم سے حادث ہوئے اور پھر حادث سے قدیم ہوں گے انشاءاللہ۔
ضرورت ہے اپنے وجود کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی، کسی کی نظر کرم کی، کسی کے فیضانِ نظر کی۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

