Dard o Gham Ke Baghair Shaoor Namumkin
درد و غم کے بغیر شعور نا ممکن

بے شمار درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر۔
اِس کائنات میں ہر انسان کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ شعور کی منازل طے کرے اور اپنے علم کی بنیاد پر اپنے ارد گرد کے لوگوں کو متاثر کرتا رہے اور دنیا کے لیے کوئی ایسی تخلیق کوئی ایسی تحریر کوئی ایسی ایجاد چھوڑ کے جائے جس تحریر تخلیق یا ایجاد کا وجود دنیا کو اُس کی یاد دلاتا رہے اور اُس کا نام رہتی دنیا تک روشن رہے۔
اِس کے لیے ہر انسان کوششیں کرتا رہتا ہے، ڈگریاں حاصل کرتا ہے، معلومات اکٹھی کرتا ہے، کتابوں کی وساطت سے اور کتاب ہی کی شکل میں اِس کو تحریر بھی کرتا رہتا ہے، تاکہ ان تخلیقات کا وجود برقرار رہے اور دنیا اِن سے فیض یاب ہوتی رہے۔
لیکن یہ جو کتابوں، مقالوں اور تحریروں کی دنیا ہے یہ شعور کی دنیا سے الگ ہے، شعور اور چیز ہے، یہ پڑھنے پڑھانے سیکھنے سکھانے سے حاصل نہیں ہو سکتا، اِس کے لیے ایک تعلق ایک نسبت ایک محبت کسی بھی ایک انسان کے ساتھ ضروری ہے، پھر ہی کشف کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
کچھ علم، کچھ راز ایسے ہیں جو کہ آپ کے نظر و شعور سے اوجھل ہیں، اِن پر کائنات نے پردہ رکھا ہوا ہے یہ راز یہ کشف اُسی صورت میں وارد ہو سکتے ہیں جب آپ کو درد و غم عطا ہو جائیں۔
ایک بہت ہی قیمتی جملہ ہے ہدیہ کر رہا ہوں کہ شعور درد و غم کے بغیر نہیں آ سکتا۔
جتنی مرضی کتابیں پڑھ لیں، جتنے مرضی مقالے پڑھ لیں، تحقیقات پڑھ لیں، تاریخ پڑھ لیں، دنیا جہان کا علم حاصل کر لیں، جب تک درد و غم عطا نہیں ہوں گے تب تک شعور حاصل نہیں ہو سکتا اور کشف کا پہلا درجہ یعنی کہ کشفِ عقلی اُسی وقت عطا ہوگا جب درد و غم وجود میں سرایت کر جائیں گے اور درد و غم سے بھی پہلے محبت عطا کی جائے گی وہ محبت جو کہ لاحاصل ہے، اس لاحاصل محبت کے صدقے درد و غم اترتے ہیں۔
جوش کا ایک شعر ہے
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
سو کشمکشِ دہر سے آزادی اُسی وقت ملتی ہے جب سوز و غم عطا ہو جاتے ہیں، یہ وہی غم ہیں، وہی درد ہیں جن کے لیے حضرت امام غزالیؒ نے اپنا تعلیمی رتبہ چھوڑ کر دو سال گوشہ نشینی اختیار کی تھی۔
یہ وہی درد ہیں جو حضرت اقبالؒ پر وارد ہوئے تھے اور اُن کی تحاریر اور شاعری کو امر کر دیا گیا۔
ذاتی غم بھی کائناتی تاثیر رکھتا ہے آپ پر کائنات کے وہ علم منکشف کر سکتا ہے جو کہ ابھی تک منکشف نہیں ہو سکے۔
حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ یہ غم ہی ہے جس سے رازی، رومی، جامی اور اقبال بنتے ہیں۔
مگر بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہماری قوم کا عمومی رویہ بالکل مختلف ہے ہم اِس قابل نہیں رہے کہ اِن درد و غم کی تاثیروں کو پہچان سکیں، اِس کا اندازہ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارا ہنسنا ہماری تفریح کن باتوں کی طرف متوجہ ہو کے ہوتی ہے۔
اپنے آپ کو کھوجنے کی ضرورت ہے، اپنے اندر کے اندر تک پہنچنے کی، ضرورت ہے اپنی روح سے حجابات اٹھانے کی، ضرورت ہے اپنا اصل دریافت کرنے کی، پھر ہی معاملہ سمجھ آ سکتا ہے۔
ہماری روح کی اصل کیفیت غم ہی ہے، لیکن ہم اِس قابل نہیں رہے کہ اِس غم کو پہچان سکیں، ہم اپنے آپ سے ہی منہ پھیرے بیٹھے ہیں تو پھر شعور کی دہلیز تک کیسے پہنچیں گے۔
چند سطحی معلومات حاصل کرکے ہم خود کو مفکر و عالم سمجھتے ہیں اور درد و غم کے معجزات سے نا آشنا ہیں جہاں سے کشف کے دروازے کھلتے ہیں۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

