Daastan e Gham
داستانِ غم

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر، ہم سب کو زندگی میں کسی نہ کسی غم سے گزرنا پڑتا ہے، غم ایک حقیقت ہے اِس سے بچنا محال ہے، لیکن حضرتِ انسان ہمیشہ ہی اِس حقیقت سے آنکھ چراتا آیا ہے، بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو غم کی حقیقت کو سمجھ پاتے ہیں اور اِس کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کو غم سے نوازتے ہیں تاکہ وہ اللہ تبارک و تعالی کے اور قریب آ جائیں۔ غم اللہ تعالی کے قرب کا اعلی مقام ہے، غم کا سجدہ تمام سجدوں سے افضل ہے۔ وہ سجدہ جو امام حسینؓ نے دوران شہادت ادا فرمایا نہ ایسا سجدہ آج تک کسی نے کیا ہے اور نہ ہی کوئی کر سکے گا، وہ تسلیم و رضا کا اعلی مقام ہے اور بنی نو انسان کے لیے تا ابد مشعل راہ ہیں۔
اسلام کے دامن میں ہیں بس دو ہی چیزیں
ایک ضربِ یدالہی ایک سجدہِ شبیری
ضربِ یدالہی بھی اُنہی کو عطا ہوتی ہے جس نے سجدہ شبیری ادا کیا ہو یہ ایک راز ہے، دونوں عطائیں پنجتن پاک گھرانے کا ہی اعجاز ہے۔ ذاتی غم بھی کائناتی تاثیر رکھتا ہے، ذاتی غم بھی انسان کو وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں وہ کائناتی تسخیر کے قابل ہو سکتا ہے، غم میں سجدہ انسان کو سرفراز کر دیتا ہے، غم میں سجدہ اللہ تعالی کے قُرب کا اعلی مقام ہے۔ اِس عہدِ کربلا میں رہتے ہوئے ہمارے پاس ایک ہی حل ہے کہ غم کو گلے لگایا جائے اور اِس درد سے جو کمی ہماری عبادتوں اور ریاضتوں میں رہ گئی ہے اُس کو پورا کر لیا جائے اور کوئی طریقہ نہیں ہے نجات کا آج کے انسان کے پاس اعمال کی کمی ہے اعمال کے سہارے نجات بہت مشکل ہے، درد و غم ہی سہارا ہیں اگلے جہان میں نجات پانے کے لیے۔ غم والا انسان عبادتوں والے انسان پر سبقت لے جاتا ہے، عبادتوں والے انسان سے بہت آگے نکل جاتا ہے۔
آج کا انسان روپے پیسے کے جال میں پھنستا چلا جا رہا ہے درد و غم سے نا آشنا اپنے مستقبل سے بے خبر ہے، ہمارے دین میں درد و غم کا بہت مقام ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ درد ہی اللہ ہے اور درد ہی رسول ہے تو غلط نہیں ہوگا، ہمارے پاس نا اشک ندامت ہے نہ گدازي دل ہے، نہ محبوب ہے اور نہ ہی محبت ہے۔ ہم پیسے کی دوڑ میں اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں اور نہ آشنا ہیں کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے یہ ساٹھ، ستر سال کی زندگی پیسے کی دوڑ بن کے رہ گئی ہے، آج کے انسان کو ضرورت ہے کہ رک کے آرام سے بیٹھ جائے اور گزشتہ زندگی پر نظر دوڑائے اور دیکھے کہ دین کے بنیادی اصولوں کو بھلا کر وہ کہاں کھڑا ہے۔
زندگی ہے کم بہت اور وقت کم ہی رہ گیا
آرزوؤں کا سفینہ تیرے غم میں بہہ گیا
غم کمزور آدمی کو کھا جاتا ہے اور مضبوط آدمی کو بنا جاتا ہے، تاریخ بھری پڑی ہے ایسے لوگوں سے جنہوں نے بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں، اُن کا سرمایہ درد و غم کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا، واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ غم ہی وہ طلسم ہے جس سے جامی، رومی، ساقی اور اقبال بنتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اگر کسی کو قُرب عطا کرنا ہو تو اُس کو غم دیا جاتا ہے، اِس لیے غم سے گھبرانا نہیں چاہیے یہ آپ کو اللہ تعالی کے قریب کرنے کے لیے آتا ہے، بس خیال رہے کہ غم میں گلا نہ ہو، سجدہ شکر ہو تو سمجھو غم سرفراز کر گیا، پار لگا گیا۔
حسنین کریمین کا غم لینے والا ولی بنا دیا جاتا ہے، غم میں سجدہِ تسلیم و رضا دیکھنا ہے تو کربلا کو دیکھیں۔ نہ کربلا سے پہلے نہ کربلا کے بعد تاریخ میں کہیں نہیں ملتا کہ کوئی ایک لفظ بھی گلے کا زبان پر آیا ہو، مشکل کشا گھرانے نے اپنے لیے کبھی مشکل کشائی نہیں مانگی، لوگوں کی مشکلیں ہی حل کی ہیں، اپنے لیے کربلا کو ہی گلے لگایا ہے، کیونکہ اِسی میں یار کی رضا تھی۔ ہماری روح کی اصل کیفیت بھی غم ہی ہے، اگر ہم اپنی روح سے پردے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ایک تڑپ، کرب، بے چینی روح کا حاصہ ہے کیونکہ اِس کو جدا کر دیا گیا ہے اپنے اصل سے۔ ہم ایک دوسرے کا غم ہی ہیں جو کہ ایک دوسرے کی خوشی بن کر بیٹھے ہیں۔
غموں میں ایک غم حضرت اقبال رحمت اللہ علیہ کا بھی ہے، جنہوں نے سنت رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے قوم کے غم کو گلے لگایا اور قوم کے بارے میں مجاہدہ کیا اور پاکستان کا خواب پیش کیا اِسی غم کے صدقے اُن کو سرفراز کر دیا گیا اور اُن کا کلام دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ٹھہرا، شاید ہی کوئی زبان ہو جس میں ان کے کلام کا ترجمہ نہ کیا گیا ہو، یہ فیض تھا اُس غم کا اُس درد کا جو اُنہوں نے قوم کے لیے لیا، اللہ تعالی ہمیں درد و غم سے آشنا فرمائے اور غم میں سجدہ شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔