Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Aqal Mehv e Hairat Hai

Aqal Mehv e Hairat Hai

عقل محوِ حیرت ہے

بے شمار درود و سلام سرور کونین سرکار ﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر۔

قرآنِ کریم میں ارشاد ہے کہ تم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے، اِن نعمتوں کا شمار اِن عطاؤں کا شمار ہی کرنا بڑا مشکل ہے، بلکہ ناممکن ہے، ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جتنی بھی عطائیں اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو ودیعت کی ہیں اُن کی کوئی جامع تعریف نہیں کی جا سکتی، یعنی کوئی ایسی تعریف، ایسا میکنزم، ایسا راستہ متعین نہیں ہو سکتا جس پر چل کر یہ عطائیں کسی بھی فردِ واحد کو میسر ہو سکیں، یعنی کوئی فارمولا نہیں ہے۔

آپ محبت کو ہی دیکھ لیجئے محبت کی کوئی جامع تعریف نہیں ہو سکتی ہر فرد پر محبت میں تقریباََ ایک ہی طرح کے واقعات گزرتے ہیں اور اس میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں، ایک ہی طرح کی کیفیات وارد ہوتی ہیں، لیکن اِن کو لفظوں میں ایسے سمونا کہ بات دوسرے کے دل میں اُتر جائے اور وہ بھی اُس مشاہدے میں شامل ہو جائے نا ممکن ہے۔

آپ محبت پر ہزاروں قصیدے لکھیں، پڑھیں، سنائیں، ہزاروں کتابوں کا مطالعہ کریں، لیکن بات دوسرے کے دل میں نہیں اُتر سکتی جب تک کہ اللہ تبارک و تعالی عطا نہ کریں۔

اس کیفیت کا مشاہدہ وہی کر سکتا ہے جس کو کہ عطا ہوگئی ہو، محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا لیکن ابھی تک اِس کی کوئی جامع تعریف نہیں کر سکا، ہر فرد پر محبت عطا ہونے کا واقعہ مختلف ہے اور ضروری نہیں کوئی واقع ہی ہو، بیٹھے بیٹھے بھی یہ انعام عطا ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح دوسری عطائیں ہیں، جیسے عشق کیا ہے، عشق کو آپ پڑھنے بیٹھیں یا سمجھنے بیٹھیں تو آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، ہاں وہ انسان جو کہ اِس مشاہدے میں شامل ہے جس کو کہ عشق عطا ہو چکا ہے وہ کوئی ایک جہت یا ایک رخ کا بیان کر سکتا ہے، لیکن رہے گی پھر بھی یہ عطا ہی، پڑھنے پڑھانے، سیکھنے سکھانے، سننے سنانے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔

اللہ تبارک و تعالی کی ذات پر کامل یقین بھی عطا ہی ہے ہماری دعاؤں کے قبول نہ ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ یقین کا نہ ہونا ہے، گرچہ اِس میں دوسرے عوامل بھی کار فرما ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہی ہے، اسی طرح اگر آپ دیکھیں دوسری عطائیں جو حضرتِ انسان پر وارد کی گئی ہیں اُن میں بھی عقلی دخل کچھ بھی نہیں، جیسے یاد، آنسو، نیند، رزق وغیرہ اور اِس سے آگے جائیں تو قلم بھی عطا ہی ہے۔

اگر کوئی ایسی تحریر با تاثیر آپ کے قلم سے سرزد ہوتی ہے تو یہ عطا کے بغیر ممکن نہیں ہے، تحریر میں تاثیر بھی عطا ہے، کسی پے شاعری وارد ہو رہی ہے تو یہ بھی عطا ہی ہے، گرچہ آج کل اِس کو مکینیکل بنانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے، لیکن اہلِ نظر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ عطا ہی ہے یا کہ قافیہ ردیف کی مشق، یہ تمام قدرتی انعامات اور عطائیں جو انسان کو میسر کیے گئے ہیں اِن کی تعریف ناممکن ہے اور تعریف کے بعد کوئی ایسا نصاب یا کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس کو پڑھ کر آپ اِن کیفیات کو سیکھ سکیں۔

عقل بے بس ہے، محو حیرت ہے، اللہ تبارک و تعالی کی عطائیں سمجھ میں نہیں آ سکتیں کہ اِن کے انسانی وجود پر وارد ہونے کا کیا فارمولا ہے، تو پھر اللہ تبارک و تعالی کی ذات کیسے سمجھ آ سکتی ہے، اِس کی سب سے بڑی عطا زندگی کیسے سمجھ آ سکتی ہے، زندگی کے بعد موت کیسے سمجھ آ سکتی ہے، یہ تو ایک سفر ہے اور یہ سفر بھی انعام ہی ہے عطا ہی ہے، جو کہ آپ پر فرض کر دیا گیا ہے، اِس میں سے نکلنا ہے خود کو بچا کر خیر و عافیت سے اور یہ خیر و عافیت بھی عطا ہی ہے، خیر و عافیت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالی کی مکمل اطاعت کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اِس مختصر وقفے سے نکل جانا ہے۔

بس بزرگوں اور فقیروں کو اتنی ہی سمجھ آئی ہے کہ اللہ کریم کے قرب کے زمانے آنسوؤں کے زمانے ہیں، اگر اُس ذات کو یاد کرتے ہوئے آپ پر رقت طاری ہوگئی ہے پھر سمجھیں کہ قرب حاصل ہوگیا ہے، سجدہ بھی ہو اور آنسو بھی ہوں تو یہ بہت ہی قرب کا مقام ہے، بس اتنا ہی سمجھ ایا ہے اللہ، عقل کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کچھ بھی تو نہیں عقل بے بس ہے، خود کو کھوجنے اور دل کا راستہ دریافت کرنے کی ضرورت ہے صرف یہی ایک راستہ ہے اُس پاک ذات تک پہنچنے کا۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam