Sunday, 23 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Ansu Zuban o Bayan Se Pehle

Ansu Zuban o Bayan Se Pehle

آنسو زبان و بیان سے پہلے

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

زبان و بیان کی تاریخ 50 ہزار سال سے پرانی نہیں ہے لیکن انسانی تاریخ لاکھوں سال پرانی ہے۔ سائنس کے مطابق انسانی تاریخ تقریباََ پانچ لاکھ سال پرانی ہے۔ پانچ لاکھ سال قبل انسانی وجود تحلیق میں آیا یہ ایک اندازہ ہی ہے۔

ہمارے دین کے مطابق حضرت انسان کی تاریخ حضرت آدمؑ سے شروع ہوئی، وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا کہ، لیکن اللہ تبارک و تعالی نے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا، جہاں ابلیس نے انکار کر دیا اور لعین ٹھہرا یہ کن فیکون سے پہلے کہ واقعات ہیں۔

یہاں یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کس زبان میں حکم دیا ہوگا، کیونکہ ہمارے پاس جو تاریخ ہے یعنی زبان و بیان کی تاریخ وہ تو چند ہزار سال پرانی ہے۔ عقل قاصر ہے اِس سوال کا جواب دینے کے لیے۔

قران پاک میں ارشاد ہے کہ آپ سرکار ﷺ پر درود پڑھو اللہ تعالی اور فرشتے بھی سرکار پر درود پڑھ رہے ہیں، اللہ پاک اور فرشتے کن الفاظ میں درود شریف پڑھ رہے ہیں یہ سوال بہت سے بزرگوں سے ہوا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ اِس بات کو چھوڑیں جو حکم ہے صرف اِس کی بجا آوری کی کوشش کریں۔

جو درود پاک آپ کو عطا ہوا ہے وہ پڑھیں۔

درود پاک کا فلسفہ یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ درود صرف الفاظ نہیں ہیں یہ ادب ہے، آنسو ہیں، یاد ہے، ادب ہے تو الفاظ تو آپ کو تب عطا ہوئے ہیں جب آپ اس قابل ہو گئے کہ پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں درود شریف تو کائنات بننے سے پہلے کا پڑھا جا رہا ہے۔

الفاظ صرف مددگار ہیں آپ کو اُس خیال میں لے کے جانے کے لیے، آنسو اور یاد اصل میں زادِ راہ ہیں درود شریف کو ادا کرنے میں۔

گویا الفاظ صرف سہارا ہیں اُس کیفیت میں جانے کے لیے جو کہ ادب کی کیفیت ہے، خیال کی کیفیت ہے اور رقت کی کیفیت ہے۔

دنیا بننے سے پہلے کس زبان میں بات ہوتی تھی کچھ عالم دین فرماتے ہیں کہ عبرانی زبان میں جو کہ ایک اندازہ ہی ہے۔

قران کریم لوح محفوظ میں رکھ دیا گیا ہے ہمیشہ کے لیے اور آج بھی محفوظ ہے مگر کسی زبان میں کوئی نہیں جانتا یہ راز ہیں قدرت کے جن پہ زیادہ سوچنا نہیں چاہیے جو احکامات ہمیں عطا ہوئے ہیں بس اُن کی بجا اوری کرنا ہمارا فرض ہے۔

قدرت نے انسان کو جو اظہار عطا کیا ہے وہ آنسو ہیں زبان و بیان نہیں جیسا کہ میں نے عرض کیا زبان و بیان کی تاریخ تو کل کی بات ہے بچہ جب پیدا ہوتا ہے اپنی ضروریات کا اظہار رو کر کرتا ہے، قدرت نے ماں کی صورت میں ایک سبب پیدا کر دیا ہے جو کہ اس کے احساسات سمجھتی ہے۔ بھوک لگتی ہے تو وہ روتا ہے ماں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ بھوک کی وجہ سے رو رہا ہے یہ ایک قدرتی اظہار ہے جو قدرت نے بچے کو ودیعت کرکے اس دنیا میں بھیجا ہے۔

زبان سیکھنے اور پڑھنے کا عمل بہت بعد میں شروع ہوا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آنسو کسی اور جہان کا پیغام ہوتے ہے آپ سرکار ﷺ کی یاد میں رقت کا طاری ہونا اظہار محبت و عقیدت آنسو ہی تو ہیں۔ وہ خوشی یا غم کے آنسو نہیں ہوتے رقت ہوتی ہے جو کہ ایسے ہی ہے جیسے انسانی وجود میں سونے کے ذرات۔

آنسو محبت اور عقیدت میں اظہار کی صورت آنکھیں تر کر دیتے ہیں۔ آنسو پیغام ہیں اگلے جہان سے۔

کہتے ہیں کہ جب انسان میت بن جاتا ہے تو پھر بھی اظہار آنسو ہی رہتے ہیں، گویا یہ واحد اظہار ہے جو کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے۔

درود شریف پڑھتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں تو سمجھیں کہ درود شریف قبول ہوگیا۔ آنسو دراصل حقیقت ہیں بلکہ حقیقتوں سے بات کرنے کا ذریعہ ہے۔

ہم اللہ تعالی کو دیکھ نہیں سکتے یہ اذن ہمیں عطا نہیں کیا گیا ہے۔ اللہ پاک ایک احساس کی صورت میں ہمارے اندر موجود ہیں بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی کی یاد میں یا سرکار ﷺ کی یاد میں آنسوؤں کا آنا دراصل خود اللہ ہی ہے اور رسول ہی ہیں۔

رات کو تہجد کے وقت آنسوں کا بہنا دعاؤں کی آغوش میں تقدیریں بدل دیتا ہے۔

اگر آپ کو آنسو عطا ہو گئے ہیں تو اس کو تہجد میں لے جائیں اس وقت اللہ پاک کی رحمتیں اپنا در کھولے آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ جتنے بھی شاہکار تخلیق ہوئے ہیں وہ رات کی تاریکی میں ہی تخلیق ہوئے ہیں، درد و غم کے سائے میں۔

آنسو دعا بھی ہیں۔ دل میں کوئی خیال ائے اور آنسو رواں ہو جائیں ایک التجا کے ساتھ چاہے الفاظ شامل نہ بھی ہوں تو وہ دعا ہی ہے۔ مجبور کی فریاد آنسو ہیں جو دعا کی صورت اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقبول ہیں۔ ماں کی فریاد آنسوں کی شکل میں اولاد کے لیے سایہ فگن رہتی ہے۔

اللہ پاک آپ کو آنسو عطا فرمائے اور آپ کے آنسوؤں کو قبول فرمائے۔

Check Also

Hukumat Murshidati Media Se Khush

By Abdullah Tariq Sohail