بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر مقررہونے پرمریم نواز کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں جھرا گھونپا، ساتھ چلنا مشکل ہو گا۔ جبکہ سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ پی ڈی ایم اب بھی برقرار ہے۔ اقتدار کی سیاست کتنا بے رحم کھیل ہے؟ اقتدار کی بے رحم رسہ کشی کے بارے میں تاریخ بھری پڑی ہے، اقتدار کے لئے بیٹے اپنے والد اور والد اپنی اولاد سے کیا کرتے رہے؟ اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں یہ سب جانتے ہیں۔ موجودہ حالات بھی تاریخ کا حصہ ہیں ابھی کل ہی سید یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف عذر داری داخل کرائی اور ساتھ ہی ان کے دربار میں پیش ہو گئے کہ مجھے اپوزیشن لیڈر بنایا جائے اور صادق سنجرانی نے بھی کہا کہ آئیں جی بسم اللہ۔ برسر اقتدار جماعت جو کہ پیپلز پارٹی کو کرپٹ ترین جماعت کہتی آ رہی ہے اب نئی صورتحال پر وہ پیپلز پارٹی کی تعریف کرتی نظر آتی ہے۔ کہاں گیا دھاندلی دھاندلی اور چور چور کا شور؟ نظریات اور اصول کی سیاست، یہ باتیں اب صرف مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں اصولی سیاست کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم مکافات عمل کا شکار ہوئی، عوام نے اس کا منفی بیانیہ مسترد کر دیا، وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے گیلانی کے اپوزیشن لیڈر بننے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ (ن) لیگ ایک بار پھر پی پی سے مات کھا گئی، جاتی امراء میں ن لیگ کا سوگ قابل رحم ہے۔ شیخ رشید نے کہاکہ 6ماہ کی خجالت کے بعد پی ڈی ایم کی تحریک ٹائیں ٹائیں فش، سینیٹر فیصل جاویدنے کہاکہ پی ڈی ایم کو عوام کی فکر نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کا جنازہ نکل گیا۔ یہ اور اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تنقید کا رُخ ن لیگ کی طرف ہے۔ حکومت کی نظروں میں پی پی معصوم بن گئی گو کہ گیلانی نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اب بھی زندہ ہے مگر یہ بات بذات خود ایک مذاق ہے کہ گیلانی نے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پی ڈی ایم کے مقابلے میں ہی حاصل کیا۔ اُن کا مقابلہ تحریک انصاف یا اس کی حلیف جماعتوں سے نہ تھا بلکہ اپنی ہی پی ڈی ایم سے تھا، اور جس طرح یہ عہدہ حاصل کیا گیا اس سے تو بھاگتے چور کی لنگوٹی والی کہاوت یاد آتی ہے۔ وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے پی ڈی ایم کے لئے ٹوئٹر پر یہ شعر لکھا:
تیرے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے اے جگر مبارک یہ شکست فاتحانہ
حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو سید یوسف رضا گیلانی کی یہ کامیابی، کامیابی نہیں ہے کہ اس سے حکومت کو استحکام اور اپوزیشن کو نقصان ہوا ہے۔ حکومت کے حامیوں کی طرف سے یہ تبصرے کہ سینٹ کا بدلہ سینٹ میں ہی لیا گیا اور پی ڈی ایم اتحاد کی بوسیدہ گدڑی ایسی چھلنی ہوئی کہ گدڑی میں باقی کچھ نہ رہااور مارچ میں، مارچ ہونے والی بات بھی سامنے آئی اور سید یوسف رضا گیلانی کی اس بات کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ "واقعی نیوٹرل"ہے۔ پی ڈی ایم بحران کا شکار کے عنوان سے میں نے روزنامہ 92نیوز میں پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ پی ڈی ایم کو برقرار رہنا چاہیے کہ مضبوط اپوزیشن جمہوریت کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ میں نے انہی کالموں میں پارلیمانی جمہوریت کے دیگر مسائل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے گزارش کی تھی کہ ارکان اسمبلی کو لڑنے جھگڑنے کی بجائے قوم پر رحم کرنا چاہیے اور افہام و تفہیم کی صورت پیدا کرنی چاہیے، اور اس بات پر غور کرنا چا ہیے کہ سینٹ الیکشن پر اتنا ہنگامہ کیوں ہے؟
ہمیں جو بات سمجھ آتی ہے ایک تو یہ کہ ایوانِ بالا غیر متوازن ارادہ ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ سینٹ میں 38فیصد آبادی کے 3صوبوں کو75فیصد نمائندگی اور 62فیصد آبادی کے ایک صوبے کو محض25 فیصد نمائندگی حاصل ہے۔ صوبہ بننے سے بہت حد تک توازن پیدا ہو گا اورچھوٹے صوبوں کے ووٹوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ ختم ہو گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پارلیمانی جماعتوں کو مل کر ارکان اسمبلی کو جماعت کے سربراہ کا غلام بنانے والی آئینی ترمیم ختم کرنی چاہیے کہ جمہوری ادارے کی طرف سے اس طرح کی ترمیم سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور جمہوری نقطہ نظر سے ہر شخص کو اپنے ضمیر کے مطابق اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ جمہوری نقطہ نظر سے کسی بھی جماعت کے سربراہ کو آمرانہ اختیارات حاصل نہیں ہونے چاہئیں، جہاں تک سینٹ کے متعلق وسیب کے اعتراضات کا سوال ہے تو اس الیکشن میں وسیب کو نظر انداز کیا گیا ہے، یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے یہ ہوتا آ رہا ہے۔
سینٹ کے قیام کے بعد بہت سی شخصیات اپوزیشن لیڈ ر کے طور پر سامنے آئیں جن میں محمد ہاشم غلزئی (این اے پی)1973ء تا 5جولائی 1977ء۔ وسیم سجاد 1988ء تا 1988ء۔ محمد علی خان ہوتی 1988ء 1990ء۔ راجہ محمد ظفر الحق (پی ایم ایل۔ این) 1994ء تا 1996ئ۔ چوہدری اعتزاز احسن (پی پی پی) 1996ء تا 1999ئ۔ میاں ر ضا ربانی (پی پی پی) 10 جنوری 2005ء تا 12مارچ 2006ء۔ 12 جون 2006ء تا 23مارچ 2008ء۔ کامل علی آغا پی ایم ایل۔ کیو)اپریل2008ء 12مارچ 2009ء۔ وسیم سجاد 15اپریل 2009ء تا 30 مئی 2011ء۔ مولانا عبد الغفور حیدری (جے یو آئی۔ ایف)6جون 2011ء تا 12مارچ 2012ئ۔ محمد اسحاق ڈار (پی ایم ایل۔ این) 12 مارچ2012ء تا 4جون 2013ء۔ چوہدری اعتزاز احسن (پی پی پی) 10جون2013ء تا 12 مارچ 2015ء۔ چوہدری اعتزاز احسن (پی پی پی)25مارچ 2015ء۔ اور بہت سے دیگر بھی شامل ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کی کارکردگی کیسی رہی، اب سید یوسف رضا گیلانی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں تو دیکھنا ہو گا کہ وہ کس قدر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں سینٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کیا اب دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ اپنی ہی جماعت کی طرف سے پاس ہونے والے بل کا کس قدر دفاع کرتے ہیں۔