ویت نام اور افغان جنگ میں پنہاں سبق (آخری حصہ)
سوویت یونین سے ویت نام جنگ کا بدلہ افغانستان میں لینے کے بعد امریکا مجاہدین کو ان کے حال پر چھوڑ کر افغانستان سے رخصت ہوگیا۔
اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد اس نے پاکستان سے بھی آنکھیں پھیر لیں، لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس نے سوویت دشمنی میں جن انتہا پسند قوتوں کو بے پناہ طاقت ور کر دیا تھا، وہ سب کے قابو سے اب آزاد ہوچکے تھے۔ کچھ عرصے کی خانہ جنگی کے بعد افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوگیا۔
بے رحم سیاست کے رنگ دیکھیے کہ مشکل وقت پڑنے پر سوویت یونین نے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ سے اسی طرح آنکھیں پھیر لیں جیسے آج امریکا افغانستان میں صدر اشرف غنی کو تنہا چھوڑ کر جا رہا ہے۔ یہ موازنہ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ تھی کہ سوویت شکست اور امریکا کی عدم دلچسپی کے بعد ہونے والی خانہ جنگی کے بعد جو طالبان برسر اقتدار آئے وہ امریکا کے حامی نہیں بلکہ مخالف تھے۔
سوویت افواج کے خلاف جنگ میں مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا نقصان امریکا کو 9/11 کی شکل میں اٹھانا پڑا۔ اب بازی پلٹ چکی تھی، سوویت یونین کا وجود ختم ہوچکا تھا تاہم، امریکا افغانستان میں اپنی کامیابی کا جشن تا دیر نہیں منا سکا۔ 9/11 کے بعد امریکا کو دوبارہ افغانستان میں آنا پڑا۔ اس بار اسے اقوام متحدہ کا مینڈنٹ حاصل تھا۔ نیٹو کے اتحادی بھی اس کے ساتھ تھے اور پاکستان جیسے نان نیٹو اتحادی کی مدد بھی اسے حاصل تھی۔ اس نے اپنی غیر معمولی فوجی طاقت کی بنیاد پر افغانستان میں اپنی حامی حکومت قائم کر لی لیکن اس حکومت کو طالبان کی مزاحمت کا بدستور سامنا تھا۔
سوویت یونین 1974 میں جس عذاب میں مبتلا ہوا تھا، اب امریکا کوبھی اسی طرح کے ایک دوسرے عذاب کا سامنا تھا۔ گیارہ ستمبر کے ایک مہینے بعد امریکا اکتوبر 2002 میں افغانستان میں داخل ہوا۔ 2010 تک افغانستان میں ایک لاکھ پچاس ہزار غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود تھے جن میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ تقریباً 18 سال کی فوجی موجودگی نے امریکا کے لیے بے پناہ مسائل کھڑے کر دیے۔
امریکا نے اپنی حامی حکومت کی بے پناہ فوجی اور مالی مدد کی لیکن اتنے طویل عرصے کے بعد اب اس کے لیے افغانستان میں موجود رہنا عملاً ممکن نہیں تھا۔ امریکی رائے دہندگان بار بار یہ سوال پوچھ رہے تھے کہ ان کے ٹیکسوں سے حاصل رقم افغانستان کی بظاہر ایک بے مقصد جنگ میں کیوں جلائی جا رہی ہے اور امریکی فوجی وہاں کس مقصد کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں؟ ویت نام کی طرح امریکا نے افغانستان میں بھی جنگ کی بھاری لاگت ادا کی ہے۔
محتاط اندازہ ہے کہ امریکا کو افغان جنگ میں 2 کھرب ڈالر خرچ کرنے پڑے ہیں۔ یہ رقم اس نے قرض لے کر حاصل کی تھی جس پر اسے سود اور ادائیگی کی مد میں 2030تک مزید اربوں ڈالر ادا کرنے ہوں گے اور 2050 تک یہ رقم 6.5کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ ان بھیانک اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ امریکا میں دہائیوں سے جاری انتہائی کم شرح نمو، میں ویت نام اور افغانستان کی جنگوں پر ہونے والے اخراجات نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ امریکا، افغانستان سے رخصتی کا عمل مکمل کرنے والا ہے۔
اسے اطمینان ہے کہ اب کوئی سوویت یونین اس کے پیدا کردہ خلاکو پورا کرنے کے لیے موجود نہیں ہے، اب جو بھی افتاد پڑے گی وہ اس خطے کے ملکوں کو براہ راست بھگتنا ہوگی۔ جان بچی لاکھوں پائے کے مصداق وہ خوشی خوشی افغانستان سے رخصت ہو رہا ہے لیکن پاکستان سمیت اس خطے کا ہر ملک وہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کی مشکلات دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہیں کیوں کہ اگر وہاں خانہ جنگی میں شدت پیدا ہوتی ہے اور اس کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو پاکستان پر اس کے براہ راست اثرات مرتب ہوں گے۔
20 ویں صدی نوآبادیاتی اور سامراجی بالا دستی کے خلاف بے مثال تحریکوں، دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کے بھیانک تجربات سے عبارت تھی۔ گزری صدی میں پیدا ہونے والے زیادہ تر تنازعات کی شدت میں اب کافی کمی ہوچکی ہے۔ ٹیکنالوجی پر مبنی پیداواری عمل نے دنیا کے تمام ملکوں کو ایک دوسرے سے گہرے طور پر وابستہ کر دیا ہے، اب کوئی ملک جنگی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ 20 ویں صدی کے زیادہ تر تنازعات کو پس پشت ڈال کر وہ ملک بھی آپس میں دو طرفہ معاشی روابط بڑھا رہے ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کے شدید دشمن ہوا کرتے تھے۔
دنیا میں صرف افغانستان اب وہ واحد مسئلہ باقی رہ گیا ہے جہاں 21 ویں صدی میں بھی بہت سے ملک ایک دوسرے کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں صف آرا نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے صرف فرق یہ پیدا ہوا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد وہاں دوسرے ملکوں کی فوجیں براہ راست ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہیں لڑیں گی بلکہ اس بدنصیب ملک میں موجود متحارب مسلح گروہ مختلف ملکوں کی نیابتی (Proxy) جنگ لڑیں گے۔
معروضی تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کو دیگر ممالک سے کہیں زیادہ مسائل کا سامنا ہوگا۔ ماضی کی چند غلطیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو سنگین نوعیت کے مسائل کو درپیش ہوں گے۔ پہلی غلطی یہ تھی کہ افغان جنگ میں پہلے ضیاء الحق اور بعد ازاں، جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ ادوار میں پاکستان کوامریکا کا حلیف بناکر اسے افغانستان میں براہ ملوث کردیا گیا۔
ان فوجی حکمرانوں نے امریکی حمایت اور امداد کے لیے پہلے افغان مجاہدین کی حمایت کرکے ملک میں مذہبی، مسلکی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کو پروان چڑھایا جس کے نتیجے میں کلاشنکوف اور منشیات کا کلچر پور ے ملک میں عام ہوگیا۔ 9/11 کے بعد جنرل مشرف نے امریکا سے بلامشروط تعاون کرکے ان عناصر کے خلاف کارروائی میں امریکا کے حلیف بن گئے جنھیں ماضی میں انھوں نے خود پیدا کیا گیا تھا۔ اس عاقبت نا اندیش پالیسی کے باعث اب افغانستان میں ہمارا کوئی دوست نہیں ہے۔
طالبان کی حمایت کرنی ممکن نہیں، ایسا کرنے کی صورت میں ہمیں امریکا اور دوست ممالک سمیت تمام عالمی برادری کی مخالفت اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان حکومت سے ہمارے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے۔ لہٰذا ان کی حمایت کرنے کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے۔
افغانستان میں پاکستان ہمیشہ امریکا کا حلیف رہا ہے، اب امریکا یہاں سے واپس جارہا ہے اور ہم تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ کسی بڑے بحران کا شکار ہونے اور ملک کو دہشت گردی کی ممکنہ کارروائیوں سے بچانے کے لیے ان بنیادی حقائق پر توجہ دینے کی روش اختیار کریں جنھیں ماضی میں ہم نظر انداز کرتے رہے ہیں؟
21 صدی کے تقاضوں کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہم ان تجربات سے سبق حاصل نہ کر لیں جن سے نہ صرف ہم بلکہ پوری دنیا گزر چکی ہے۔ گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں جس کا نقصان پوری دنیا کو اٹھانا پڑا۔ کروڑوں لوگوں کو زندگیوں سے محروم اور معیشتوں کو تباہ کرنے کے بعد یہ سبق سیکھا گیا کہ جنگ، فاتح اور مفتوح دونوں کے لیے ہمیشہ گھاٹے کا سودا ثابت ہوتی ہے۔ جنگی جنون سے جرمنی، اٹلی اور جاپان کو کچھ نہ ملا، یہ ملک تباہ وبرباد ہوگئے۔
امریکا، روس اور برطانیہ سمیت جن ملکوں نے جارح فاشسٹ ملکوں کو شکست دی تھی انھیں بھی ناقابل بیان نقصان اٹھانا پڑا۔ ویت نام کی جنگ نے یہ ثابت کیا کہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوجی طاقت بھی عوامی عزم پر کبھی غالب نہیں آسکتی۔ دوسری جنگ عظیم سے کئی گنا زیادہ بم شمالی ویت نام جیسے چھوٹے ملک پر گرائے گئے تھے لیکن یہ بم آزادی پسند عوام کی امنگوں کو قتل نہیں کر سکے۔ ماضی کے تجربے سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ طاقت کے ذریعے کسی بھی ملک پر اپنی بالادستی قائم نہیں کی جاسکتی۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا اس میں بھی بہت سے سبق موجود ہیں۔
پہلا سبق یہ ہے کہ طاقت کے ذریعے عوام اور معاشرے پر اپنا من پسند نظریہ مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ انتہا پسند قوتوں کو جنم دینے اور انھیں مضبوط کرنے والے ایک روز خود ان قوتوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ویت نام اور افغانستان کے تجربے سے یہ سبق بھی ملتاہے کہ غیر معمولی جنگی اخراجات، بڑے سے بڑے ملک کی معیشتوں کو بحران میں مبتلا کردیتے ہیں جس کا نتیجہ سابق سوویت یونین کی شکست و ریخت کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے۔
افغانستان کے بارے میں کسی بھی حکمت عملی وضع کرنے سے قبل ہمیں ان حقائق کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے اور اس مقولے پر عمل نہیں کرنا چاہیے کہ انسان نے تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔