ڈاکٹر مبارک علی: بے بدل دانش ور
انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ ریسرچ سینٹرکو قائم ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے لیکن ڈاکٹر طارق سہیل اور ڈاکٹر جعفر احمد کو داد دینی چاہیے کہ انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کو ایک اہم ادارہ بنا دیا۔ دسمبر 2019میں ادارے کی طرف سے ملک کے معروف و مشہور تاریخ داں ڈاکٹر مبارک علی کا جشن منایا گیا۔
یہ ان کی خدمت کے اعتراف کا جشن تھا۔ چند دنوں پہلے ڈاکٹر صاحب اور عزیز دوست ذکیہ مبارک کا لاہور سے فون آیا۔ ان دونوں نے بتایا کہ "تاریخ نویسی: نئے شعورکی بازگشت" کے عنوان سے کتاب شایع ہو کر آگئی ہے۔ جس میں اس جشن میں پڑھے جانے والے مضامین یکجا کر دیے گئے ہیں۔ ذکیہ نے اور ڈاکٹر صاحب کی بیٹی نین تارا نے جس طرح ڈاکٹر مبارک کی آنکھوں کا اجالا بن کر تاریخی شعور کا سفر جاری رکھا، وہ کمال کی بات ہے۔
ان دونوں سے باتیں کر کے جی خوش ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ جشن میں پڑھے جانے والے مضامین کا مجموعہ آگیا ہے اور وہ مجھے بھیج دیا گیا ہے، میں خوش ہوئی۔ لاہور سے جب پیکٹ آیا تو جی زیادہ خوش ہوا، اس لیے کہ اس میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب "عورتوں کی دنیا" بھی نکل آئی۔
ڈاکٹر مبارک کے جشن کے دنوں میں میری نگاہوں میں وہ مختصر کتابیں گھومتی رہیں جو 70 کی دہائی میں ڈاکٹر صاحب ذاتی کوششوں سے شایع کرتے تھے۔ سائیکلو اسٹائل کی ہوئی کتابیں جن میں معمولی گتے کا سرورق ہوتا تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ڈاکٹر صاحب نیکی کر دریا میں ڈال کے مصداق یہ کتابیں لکھ کرگودام میں رکھ والا کام کر رہے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب آمریت نے لوگوں کی امیدوں کا باغ روند ڈالا تھا۔ جمہوریت کا بستر لپیٹنے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی دینے کے بعد کا دور لوگوں پر آسمانی قہرکے طور پر نازل ہوا۔ خواص تو سب اچھا کی گردان کر رہے تھے لیکن وہ لوگ جو عوام الناس میں سے تھے، جانتے تھے کہ ان کے مصائب کا نسخہ شفا، شفاف جمہوریت میں ہے۔ یہی لوگ سبط حسن اور ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں پڑھتے اور سوچ بچارکرتے۔ ہمارے ان دو دانشوروں کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتیں، بہ طور خاص سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے نوجوان اپنی علمی پیاس ان کتابوں سے بجھاتے۔ آج بھی یہی عالم ہے اور اگر ہمارے یہاں نوجوانوں میں ذہنی بلوغت آئی ہے تو وہ ہمارے ان جیسے دانشوروں کے طفیل ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر جعفر احمد نے بجا طور پر یہ کہا کہ "دسمبر کی یہ سرد شام افکار تازہ کی گرمی اور بصیرت افروز خیالات کی تازگی کے حوالے سے مستقبل میں یاد رکھی جائے گی۔"
ڈاکٹر مبارک کی خدمات کے اعتراف کا خیال پاکستان سے ہزاروں میل دور کو لمبیا یونیورسٹی سے وابستہ ہمارے دو اسکالرز ڈاکٹر طاہرہ خان اور ڈاکٹر منان احمد کو اس وقت آیا جب وہ عوام کی تاریخ پر گفتگو کر رہے تھے۔ خیالات کے اس تبادلے کے دوران ہمارے ان دو اساتذہ نے اس بات پر دکھ کا اظہارکیا کہ پاکستانی سماج کو لبرل اور روشن خیال بنانے میں ڈاکٹر مبارک علی کا جو کردار رہا ہے، افسوس کہ اس کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ یہیں سے ان کی خدمات کا جشن منانے کا خیال بڑھتا اور اپنا دائرہ وسیع کرتا رہا۔ ڈاکٹر طارق سہیل اورڈاکٹر جعفر نے اپنے ادارے آئی ایچ ایس آرکی طرف سے اس جشن کی ذمے داری اٹھائی۔
ڈاکٹر صاحب کی خود نوشت "در در ٹھوکر کھائے" پڑھتے ہوئے ہم ان تمام مشکل حالات سے آگاہ ہوتے ہیں جو ہماری کم نظر بیورو کریسی کے ہاتھوں ڈاکٹر صاحب نے جھیلے۔ ہمیں "نگارشات" اور "تخلیقات" کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کو علم دوستی اور ادب نوازی کے جذبے سے شایع کیا اور پھر پاکستان بھر میں پھیلا دیا۔ ان کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔ علم کے جویا ان لوگوں کا بھی شکریہ جنھوں نے ان کتابوں کو خریدا، پڑھا، ان پر غور و فکرکیا اور ان کی روشنی میں پاکستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ آج اگر ملک میں ذہنی بیداری نظر آتی ہے تو اس کا سہرا، علی عباس جلال پوری، سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی اور ایسے ہی دوسرے دانشوروں کے سر ہے۔
ڈاکٹر مبارک نے ابتدا سے تاریخ کے اس بیانیے کو چیلنج کیا جسے ہماری مقتدر اشرافیہ کی تائید حاصل تھی۔ فرنگی کے دور میں عوام کے دلوں کو گرمانے والے بیانیے پر جس طرح ایک رومانوی سنہرے غبارکا چھڑکائو ہوا، اس نے بونوں کا قد آسمان کی بلندیوں سے ملا دیا اور ہوشو شیدی، دلا بھٹی، تیتو میر اور ہمارے وہ لڑاکے جنھوں نے فرنگی یا مغل استعمار کے خلاف جنگ لڑی، وہ تاریخ کے حاشیوں سے باہر دھکیل دیے گئے۔ نصاب کی کتابوں میں چند نام بڑے اور قابل تعظیم ٹھہرے۔ انھیں نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے "عظیم" کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ ڈاکٹر مبارک نے اس سرکاری اور نیم سرکاری بیانیے کے خلاف جرأت اور پامردی سے عوام کی تاریخ اور اس تاریخ کے سورمائوں کی زندگیاں، ان پر گزرنے والے شداید اور سرکار کے ہاتھوں ان کی بے توقیری اور تذلیل کی تفصیل اپنی کتابوں میں پیش کی۔ لوگوں پر اس بات کو آشکار کیا کہ ان کے حقیقی ہیروکون تھے اورکون ہیں۔
اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے وہ راتوں کو اپنی آنکھوں کا تیل جلاتے رہے اور دن میں کسب معاش کی کوشش کرتے رہے۔ یہ مشکل دن ان سے زیادہ ان کی شریک حیات ذکیہ کے لیے صبر آزما اورکٹھن تھے۔ ان کی بیٹیوں نے کسی بھی مرحلے پر باپ سے کوئی شکایت نہیں کی۔ ذکیہ نے معاشی پریشان حالی کو کم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر صاحب کی بینائی رفتہ رفتہ زائل ہوئی تو ان کی چھوٹی بیٹی نین تارا، ان کی آنکھیں بن گئی۔ وہ ان کے ساتھ شہر شہر سفرکرتی ہے، محفلوں میں انھیں لاتی اور لے جاتی ہے، اس کے علاوہ ذکیہ اور نین تارا ان کے تحریری کام میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ ان کے چند دوست اور ڈاکٹر جعفر جیسے مداح نہ ہوتے تو ڈاکٹر مبارک اپنی زندگی کے آخری حصے میں شاید سماج کے لیے وہ کچھ نہ کر پاتے جو انھوں نے کیا۔
ڈاکٹر مبارک کو جشن کی اس تقریب میں کبھی مورخ عوام کہا گیا اور کسی نے انھیں عوامی مورخ کے نام سے یاد کیا۔ اس بات کو ہم اگر ڈاکٹر مبارک کی نظر سے دیکھیں تو وہ اسے "متبادل تاریخ نویسی" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔"تاریخ"کے 42 ویں شمارے میں انھوں نے بادشاہوں، فاتحوں، صوفیا، علماء کے زیر اثر تاریخ نویسی کے مرحلوں کا ذکر کیا ہے۔ انگریزوں نے اپنے مفادات کے حوالے سے تاریخ لکھوائی، پھر وہ غلاموں، چرواہوں، کسانوں، ہنرمند دست کاروں اور مزدروں کی تاریخ کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:
" جہاں تک عوامی تاریخ کو لکھنے کا سوال ہے اس پر پاکستان میں توجہ نہیں دی گئی ہے، اس لیے متبادل تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں یورپ کی تاریخ نویسی سے سیکھنا چاہیے کہ جہاں مورخوں نے عوامی تاریخ لکھنے کے لیے عدالتی اور ریونیوکی دستاویزات کو استعمال کیا۔ اگر ہمارے مورخ بھی ان کی مدد سے نچلی سطح کی تاریخ کی تشکیل کریں تو اس سے تاریخ میں نہ صرف وسعت آئے گی بلکہ نئے پہلوئوں کا اضافہ ہو گا۔ اس کی مدد سے ہم جاگیرداروں کے نظام کو کچھ سمجھ سکیں گے اور کسانوں کے ساتھ ساتھ چرواہوں اور گائوں کے دستکاروں کے کردار اور تاریخ میں ان کے حصہ پر روشنی ڈال سکیں گے۔
ایک اور اہم دستاویزی خزانہ خفیہ ایجنٹس کی رپورٹیں ہیں۔ عہد برطانیہ میں وہ تحریکوں اور اشخاص کا ریکارڈ رکھتے تھے کہ جو ان کے لیے خطرناک تھے۔ ان دستاویزات سے نہ صرف ان کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ملیں گی، بلکہ ان اشخاص کے بارے میں بھی پتہ چلے گا کہ جو ان ایجنسیوں کے لیے کام کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے بہت سے محترم رہنما ان کے خفیہ ایجنٹس کے طور پر سامنے آ جائیں۔"
ڈاکٹر مبارک علی نے لگ بھگ 100 کے قریب کتابیں لکھیں اور پڑھنے والوں کے ذہنوں کو منورکیا۔ ان کی کتابوں میں سے چند مغل دربار، المیہ تاریخ، عورت اور تاریخ، بہت مقبول ہوئیں اور ان کے کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔
ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ڈاکٹر مبارک میسر آئے اور انھوں نے ہماری نسلوں کے ذہنوں میں سچ کے چراغ جلائے۔ آج ملک میں ہمیں جو سیاسی بیداری نظر آتی ہے وہ ان کی اور ابن حنیف، عباس جلال پوری اور سبط حسن ایسے بے بدل دانشوروں کی عطا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر جعفر احمد نے ڈاکٹر مبارک کا جشن منا کر ایک بڑا کام کیا ہے۔ امید ہے ڈاکٹر طارق اور ڈاکٹر جعفر ایسے کام کرتے رہیں گے اور سماج کو سنوارنے کا مشکل کام کرتے رہیں گے۔