Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. Aik Virus Ka Insano Ko Pegham

Aik Virus Ka Insano Ko Pegham

ایک وائرس کا انسانوں کو پیغام

سب سے پہلے ان تمام بہادروں کو سلامِ عقیدت جو ہمارے اور موت کے درمیان ایک دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ سلام ان کو جو موت کے وائرس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے ہماری طرف بڑھنے سے روک رہے ہیں۔ پاکستان کا ایک نوجوان ڈاکٹر اور ایک نرس اپنی جان قربان کرچکے ہیں اور ایک سینٹری ورکر موت و زیست کی کش مکش میں مبتلا ہے۔

قربانی کی ایسی بے مثال داستانیں دنیا کے ہر ملک میں رقم ہورہی ہیں۔ یورپ کے نظام صحت پر غیر معمولی دباؤ ہے، اسپتالوں اور لیبارٹریوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکل کارکنوں، سینٹری ورکرز سمیت طبی شعبہ سے وابستہ ہر فرد پر کام کا کئی سو گنا دباؤ بڑھ چکا ہے۔ اٹلی، فرانس اور اسپین میں کورونا وائرس کا شکار ہوکر 30 سے زیادہ نگہداشت صحت سے وابستہ پیشہ ور افراد اپنی جانیں لوگوں کی جانیں بچاتے ہوئے گنوا چکے ہیں۔

اٹلی کا بریشیا (Breseia) صوبہ جو اس وبا کا مرکز بنا ہوا ہے، یہاں کے 10 سے 15 فیصد ڈاکٹر اور نرسیں اس وائرس میں مبتلا ہیں۔ اس موقع پر ہمیں اس عظیم خاتون رضا کار جنیفر ہیلر کو بھی خراج تحسین پیش کرنا ہوگا جو بالکل صحت مند ہیں اور انھوں نے امریکا کے شہر سیٹل (Seatle) میں تیار ہونے والی ویکسین کے لیے خود کو پیش کیا۔ انھیں اس ویکسین کی پہلی خوراک لگادی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر انسان اس وقت خود کو انتہائی بے بس محسوس کررہا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہی وہ وقت ہے جب مجھے ان کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس ویکسین سے ان کی جان بھی جاسکتی ہے، اگر وہ محفوظ رہیں تو اس دوا کو مزید 45 صحت مند افراد پر آزمایاجائے گا۔

اس عالمی وبا نے پوری دنیا کے لوگوں کو تنہائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔ اب لوگوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ فرصت اور تشویش کے ان دنوں میں اس بات پر ضرور غور کریں کہ ہم آخر اس صورتحال سے کیوں دو چار ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا غور طلب نکتہ یہ ہے کہ دنیا نے ایک سال کے اندر 1822 کھرب ڈالر دفاع پر خرچ کیے ہیں۔ اس حوالے سے امریکا 649 ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہے۔

اس کے بعد چین 250، برطانیہ 50، جرمنی 49 ارب ڈالر سالانہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔ اتفاق دیکھیے کہ یہی وہ ممالک ہیں جہاں کورونا وائرس کی وبا نے سب سے زیادہ تباہی مچائی ہے۔ ان ملکوں نے اپنے دفاعی اخراجات کم کرکے صحت کے شعبے کی ترقی پر لگادیے ہوتے تو آج انھیں یہ غیر معمولی جانی نقصان برداشت نہ کرنا پڑتا۔ امریکا کا سب سے بڑا شہر نیویارک اس وباکا مرکز ہے۔

نیو یارک کے گورنر آندریو کیومو اس وقت انتہائی پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کورونا وائرس ان کی ریاست میں "بلٹ ٹرین" کی رفتار سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے۔ نیو یارک کے پاس وینٹی لیٹرز کی شدید کمی ہے۔ وہاں 10 ہزار وینٹی لیٹرز ہیں جب کہ لوگوں کو مرنے سے بچانے کے لیے کم از کم 30 ہزار مزید وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ اس طرح دیگر طبی ضروریات کی بے حد کمی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے بڑی فوجی طاقت اپنی ایک ریاست کی مالی ضروریات کو پوری کرنے سے قاصر ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ریاست کے لیے اپنے شہریوں کی صحت اور زندگی کتنی اہمیت رکھتی ہے؟ کورونا وائرس نے اس حقیقت کو آشکار کردیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار، بین البراعظمی میزائل، جدید ترین طیارے، آبدوزیں اور ٹینک ایک چھوٹے سے وائرس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ جب یہ وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو اس کا مقابلہ ڈاکٹر، نرس اور پیرامیڈیکل عملہ کرتا ہے۔ لوگوں کا علاج اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا۔ لہٰذا جب یہ وبا ختم ہوجائے گی تو عالمی رائے عامہ اپنی اپنی ریاستوں سے یہ سوال ضرور کرے گی کہ آپ ایک دوسرے سے لڑنے، محاذ آرائی کرنے اور لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں کو دفاع پر کم اور انسانی صحت، فلاح وبہبود اور تعلیم پر زیادہ خرچ کریں۔

اس نظر نہ آنے والے ایک معمولی سے وائرس نے انسانوں کو بڑے صاف انداز میں اس کی حیثیت یاد دلادی ہے۔ کورونا وائرس کا کہنا ہے کہ میں ایک وائرس ہوکر انسانوں سے تفریق نہیں کرتا، میں ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا، گورے، کالے، بھورے اور پیلے، صنف، نسل، قومیت اور طبقات میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتا۔ جو میرے قریب آتا ہے میں اسے اپنے گلے سے لگاکر موت سے ہم کنار کردیتا ہوں۔ لیکن تم تو خود تمام مخلوق سے افضل ہونے کا دعویٰ کرتے ہو لیکن تم ایک دوسرے کے درمیان کتنا فرق اور امتیاز روا رکھتے ہو۔ گورا، کالے کا دشمن ہے، ایشیا کے لوگ مغرب سے نبرد آزما ہیں۔

یورپی دوسروں کو خود سے کم تر تصور کرتے ہیں۔ ایک مذہب کا پیروکار دوسرے کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ سرمایہ دار غریب اور محنت کش کو لوٹتا ہے، عورتوں کے خلاف بدترین امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، انھیں مردوں کے برابر تنخواہ تک نہیں دی جاتی۔ کورونا وائرس انسانوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہا ہے کہ تم لوگوں نے اگر ہوش کے ناخن لیے اور درست تدبیر کی تو میں زیادہ لوگوں کو ہلاک کیے بغیر رخصت ہوجاؤں گا لیکن ذرا تم اپنے آپ پر ایک نظر ڈالو اور بتاؤ کہ تم نے خود اپنے ہاتھوں سے کتنے کروڑ لوگوں کو قتل اور ہلاک کیا۔

زیادہ دور کی بات نہیں ہے، یورپی اور امریکی آباد کاروں نے 16ویں اور 17 ویں صدی اور اس کے بعد 19 ویں صدی تک افریقا کے لوگوں کو غلام بنایا اور ان سے جبری کاشتکاری کروائی، بحیرہ اوقیانوس سے ہونے والی غلاموں کی اس تجارت میں کم از کم ایک کروڑ پچاس لاکھ معصوم افریقی موت سے ہم کنار ہوئے، منگولوں نے جو تباہی مچائی تھی ان میں 6 کروڑ لوگوں کو قتل کیا گیا، پہلی جنگ عظیم میں 6 کروڑ 50 لاکھ اور دوسری جنگ عظیم میں 7 کروڑ 20 لاکھ انسان، انسانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ یہ تو محض چند واقعات ہیں ورنہ تاریخ کا وہ کون سا دور تھا جب انسان نے انسان کو قتل نہ کیا ہو، تاریخ کا ہر صفحہ خون سے تر ہے، وباؤں سے بہت سے انسان ہلاک ہوئے لیکن پھر انسان نے ان وباؤں پر قابو پالیا۔ لیکن انسان جس طرح انسانوں کو قتل کرتا چلا آرہا ہے اس پر اب تک کوئی قابو نہیں پاسکا ہے۔

کورونا وائرس نے دنیا کو وارننگ دی ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے سے لڑنے اور نفرت کرنے میں اتنا مصروف ہوچکے ہو اوراس کام پر اتنا زیادہ سرمایہ خرچ کررہے ہو کہ تم میرا مقابلہ کرنے کے اہل نہیں ہو۔ جان اور مال کی بھاری قیمت ادا کرکے تم مجھ پر قابو پاؤگے اور اس کے بعد آپس میں پہلے کی طرح دوبارہ دست و گریباں ہوجاؤ گے اور میں دوبارہ کسی نئی شکل اور کسی نئے نام کے ساتھ حملہ آور ہوجاؤ گا۔

تم کب تک میرا مقابلہ کروگے، تم لوگوں کے رویے تبدیل نہ ہوئے تو ان تم مجھ جیسے ایک معمولی اور نظر تک نہ آنے وائرس کے ہاتھوں فنا بھی ہوسکتے ہو۔ مجھ سے مقابلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے میری ہی طرح دوسروں سے فرق کرنا ختم کرو، میرا اصل حقیقی توڑ تم سب کا آپس میں اتحاد ہے۔ جب تک تم ایک دوسرے کے ساتھ امتیاز روا رکھو گے، اپنے لوگوں کی صحت اور معیاری زندگی پر سرمایہ کاری نہیں کروگے، وینٹی لیٹرز، اسپتال، ڈاکٹر، نرس اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ترقی پر اسلحے کی پیداوار اور فروخت سے زیادہ اخراجات نہیں کرو گے اس وقت تک کچھ بھی کرلو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Hum Smog Se Kaise Bach Sakte Hain? (1)

By Javed Chaudhry