Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. 6 Aur 9 August, America Ko Kya Mila? (1)

6 Aur 9 August, America Ko Kya Mila? (1)

6 اور 9 اگست: امریکا کو کیا ملا؟ (پہلا حصہ)

کسی کا خواہ کوئی نظریہ ہو لیکن آج کی دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا انسان یہ کہتا ہواملے گا کہ امریکا نے 6 اور 9 اگست 1945 کو جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اورناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر درست قدم اٹھایا تھا۔

لاکھوں بے گناہ انسانوں کو پلک جھپکتے راکھ کا ڈھیر بنادینے کا کوئی جواز تھا اورنہ انسانیت کے خلاف اس کارروائی کو معاف کیا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس بارے میں اتفاق رائے ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں جوہری بموں اور اسلحے کو کبھی استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ امریکا نے جب جاپان پر ایٹم بم گرائے تو اس وقت جرمنی اور اٹلی شکست سے دوچار ہوچکے تھے۔

اٹلی میں مسولینی کا تختہ الٹ کر جولائی 1943 میں جنرل پیٹرو بڈگلیونے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ جنرل آئزن ہاور سے مذاکرات کے بعد اس نے بالآخر مشروط طور پر ہتھیار ڈال کر، اتحادی افواج کو جنوبی اٹلی میں داخل ہوکر جرمنی کے خلاف کارروائیوں کی اجازت دے دی تھی۔ اٹلی کے بعد 7 مئی 1945 کو جرمنی بھی فرانس کے شہر ریمز میں اتحادی افواج کے ہیڈ کوارٹرز میں غیر مشروط طور ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کرچکا تھا۔

اس طرح یورپ میں دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا جو 1939 میں نازی افواج کے پولینڈ پر اچانک حملے سے شروع ہوئی تھی۔ جاپان کی ناکہ بندی ہوچکی تھی، اس کے تمام اہم شہروں کو بمباری کرکے تباہ کردیا گیا تھا اور سوویت افواج کسی بھی وقت اس پر قبضہ کرسکتی تھیں۔ امریکا نے اس انتہائی بہیمانہ قدم اٹھانے کی ضرورت کیوں محسوس کی اس بارے میں حتمی طور پرکچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم، چند حقائق ایسے ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔

امریکا کو اچھی طرح علم تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دنیا پر یورپ بالخصوص برطانیہ کی بالادستی کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا، جس کے بعد دنیا میں طاقت کا خلا پیدا ہوگا جسے پرُ کرنے کے لیے امریکا کے پاس ایک سنہرا موقع ہوگا۔

لہٰذا، امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر دنیا پر اپنی ہیبت طاری کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش کی تاکہ جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد وہ واحد سپر پاور کے طور پر دنیا کی قیادت کرنے کا دعویٰ کرے اور تمام ملک اس کی تابعداری کریں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کو اس امر کا بھی اندازہ تھا کہ نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو شکست دینے میں سوویت یونین فیصلہ کن کردار ادا کررہا ہے لہٰذا بعد از جنگ زمانے میں اس کا سامنا سوویت یونین سے ہوگا جو اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتا ہے۔

جاپان پر ایٹم بم گراکر امریکا نے سوویت یونین کو یہ پیغام دیا کہ جنگ کے بعد وہ امریکا کے عالمی عزائم کی مزاحمت سے باز رہے ورنہ وہ بھی اس انجام سے دوچارہو سکتا ہے۔ امریکا کو یہ خطرہ بھی تھا کہ جاپان کو اگر فوری طور پر ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ کیا گیا تو سوویت افواج جاپان پر قبضہ کرلیں گی اور سوویت یونین اس ملک میں کمیونسٹ نظام مسلط کردے گا۔

امریکا جانتا تھا کہ سوویت افواج کسی بھی وقت جاپان میں داخل ہوسکتی ہیں لہٰذا اس نے 6 اگست کو ہیروشیما پر ایٹم بم گرادیا۔ 8 اگست 1945 کو سوویت یونین نے سرکاری طور پر جاپان پر حملے کا اعلان کیا اور سوویت فوجوں نے منچوریا اور شمال مشرقی چین پر قابض 79000 جاپانی افواج کو شکست دے کر ان علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ جاپانیوں کو سوویت حملے کا اتنا خوف تھا کہ انھوں نے امریکا کے ایٹمی حملے کو نظر انداز کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ امریکا نے 9 اگست کو ناگا ساکی پر جو دوسرا ایٹم بم گرایا، جاپان کے ذرایع ابلاغ میں اس کاکوئی تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔

سوویت یونین کے اچانک اور غیر متوقع حملے نے جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا کیوں کہ ایٹم بم گرائے جانے کے بعد جاپان کی سپریم ڈائرکشن کونسل کے نصف ارکان اتحادیوں کی جانب سے جاپان کے مستقبل کے بارے میں ٹھوس ضمانت فراہم کرنے تک ہتھیار ڈالنے سے انکار کرچکے تھے۔ اس لیے امریکا ایٹمی حملے کا یہ جواز نہیں دے سکتا کہ اس کے نتیجے میں جاپان نے ہتھیار ڈالے تھے۔

ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے گرانے کا مقصد، جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک دور رس حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ یہ خوف ناک فیصلہ نہایت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ جنگی طور پر اس بے مقصد اور بلاجواز فیصلے کا منصوبہ بہت پہلے بنالیا گیا تھا۔ اس مسئلے پر بھی تفصیلی مشاورت ہوئی تھی کہ جاپان کے کن دو شہروں پر ایٹم بم گرائے جائیں گے۔ اس حوالے سے کئی نام لکھے اور کاٹے گئے۔

آخر میں پانچ شہروں پر مشتمل ایک مختصر فہرست تیار کی گئی جس میں کوکورا، ہیرو شیما، یوکوہاما، نگاٹا اور کیوٹو شامل تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس فہرست میں ناگا ساکی کا نام شامل نہیں تھا۔ امریکا نے جو کچھ کیا وہ اس کے نزدیک عالمی بساط پر سیاسی شطرنج کی ایک خطرناک چال تھی۔ اس میں انسانی جذبات کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کا اندازہ ان ناموں سے لگایا جاسکتا ہے جو ان دونوں ایٹم بموں کے رکھے گئے تھے۔

ہیروشیما پر جو ایٹم بم گرایا گیا اس کا نام "لٹل بوائے" اور ناگاساکی پر گرانے والے ایٹم بم کا نام "فیٹ مین" اس لیے رکھا گیا تھا کہ ایٹم بم بنانے والے سائنسدان کو 1941 میں جون ہسٹن کی ایک فلم کے یہ دو کردار بہت پسند آئے تھے۔"لٹل بوائے" نے ہیروشیما میں پلک جھپکتے ایک لاکھ چالیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سلادیاجب کہ اس سے کئی گنا لوگ زخمی ہوئے۔ ناگاساکی پر "فیٹ مین" نے فوری طور پر اسی ہزار لوگوں کو لقمہ اجل بنایا۔

امریکی صدر ہیری ٹرومین کی وہ تقریر آج بھی آرکائیوز میں موجود ہے جو موصوف نے 6 اگست 1945ء کو ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کا اعلان کرتے ہوئے کی تھی اور9 اگست کو ناگا ساکی شہر پر شکار کونکلنے والے فوجی ولیم لارنس کا وہ مضمون بھی محفوظ ہے جس میں اس نے ناگاساکی پر گرائے جانے والے بم کے بارے میں یہ "شاہ کار" جملہ لکھا تھا کہ یہ "چھوٹا سا "پرزہ" ایک حسین چیز ہے۔ اس کو بنانے میں ان گنت انسانوں کے لاکھوں گھنٹے صرف ہوئے ہیں اور اس میں شبہ نہیں کہ یہ تاریخ کی سب سے مرتکز دانشورانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔"

یہ "دانشورانہ کوشش" ناگاساکی سے چند گھنٹوں کے اندر 80 ہزار اور ہیرو شیما سے ایک لاکھ 40 ہزار انسانوں کو ساتھ لے گئی تھی اور اس روز بچ جانے والے قسطوں میں ہلاک ہوئے۔ اس سے پہلے جاپان کے 67 شہروں پر روزانہ ہزاروں ٹن بارود برسایا جارہا تھااور ان دونوں شہروں پر جہنم کے دروازے کھول دینے کا جواز امریکی سرکار کے عقابوں کی طرف سے یہ دیا گیا تھا کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا ہوتا تو جاپان ہتھیار نہ ڈالتا۔ دوسری جنگ عظیم ختم نہ ہوتی اور لاکھوں لوگ مارے جاتے۔

اس کے علاوہ اپنی "معصومیت" ثابت کرنے کے لیے یہ بھی کہا گیا کہ ہم نے تو پہلے ہی جاپان کے شہروں پر چھپا ہوا انتباہ لاکھوں کی تعداد میں گرایا تھا کہ شہری اپنے بادشاہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں ورنہ ہم ان شہروں پر ایسی تباہی نازل کریں گے جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملے گی۔ اس مقصد کے لیے بہت بڑی تعداد میں پمفلٹ گرائے گئے تھے جن میں لکھا تھا:

"ان شہروں میں فوجی تنصیبات، فوجی سازوسامان تیار کرنے والے کارخانے یا فیکٹریاں موجود ہیں۔ ہم فوجی ٹولے کے پاس موجود ان تمام چیزوں کو تباہ کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ جن کے ذریعے یہ گروہ جنگ کو طول دینا چاہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بم کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ لہٰذا، امریکی افواج، امریکا کی انسانیت دوست پالیسیوں کے تحت معصوم انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاناچاہتی ہیں۔ اس لیے ہم آپ تمام لوگوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ ان شہروں کو خالی کردیں جن کے نام بتادیے گئے ہیں تاکہ آپ اپنی زندگیاں بچاسکیں۔

امریکا، جاپان کے عوام کے خلاف جنگ نہیں کررہا ہے بلکہ وہ اس جاپانی فوجی ٹولے کے خلاف لڑائی لڑرہا ہے جنھوں نے جاپانی عوام کو اپنا غلام بنارکھا ہے۔" ہیروشیما پر حملے کے بعد اس طرح کے مزید پمفلٹ گرائے گئے جن میں کہا گیا تھا کہ ہیروشیما میں یہ تباہی صرف ایک بم کا نتیجہ ہے، لہٰذا ناگاساکی کے شہریوں کو اس وارننگ پر توجہ دینی چاہیے۔

(جاری ہے)

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten

By Mubashir Ali Zaidi