Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Yasir Pirzada/
  3. Liberal Vs Molana

Liberal Vs Molana

لبرل vs مولانا

انگریزی لغت کے مطابق لفظ "لبرل"سے مراد ایسا شخص ہے جو اصلاحات کا حامی ہو، نئے خیالات اور تصورات کے بارے میں کھلا ذہن رکھتا ہو، دوسروں کے نظریات اور عقائد کا احترام کرتا ہو، روایتی سوچ کا پابند نہ ہو، دقیانوسی اور فرسودہ خیالات کو ناپسند کرتا ہو، آزاد ذہن کا مالک ہو۔ ہمارے ہاں مگر لبرل کا مطلب یہ نہیں لیا جاتا، ہم ایسے شخص کو لبرل سمجھتے ہیں جو ملک میں جنسی بےراہ روی کا فروغ چاہتا ہو، فحاشی کا داعی ہو، شراب پر پابندی کا مخالف ہو، ڈانس پارٹیوں کا شیدائی ہو وغیرہ۔ فی الحال مگر ہم لبرل کی اصل تعریف پر ہی اکتفا کریں گے کیونکہ اگر ہم لوگوں کے کہنے پر چل پڑے تو ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو ہر قدامت پسند کو مولوی یا انتہا پسند کہتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسی بات نہیں۔ لبرلز کی یاد آج اِس لیے آئی کہ کچھ دنوں سے یہ بیچارے پھر طعنوں کی زد میں ہیں اور وجہ بہت دلچسپ ہے۔ ہوا یہ ہے کہ اِن لبرل خواتین و حضرات کے نظریات و خیالات ایک ایسے شخص نے چرا لیے ہیں جو اِن سے یکسر مختلف ہے، اِس شخص کی شاندار داڑھی ہے، سر پر عمامہ ہے اور جسم پر شلوار، قمیض اور واسکٹ ہے۔ یہ شخص پکا مذہبی ہے، اسلام کا داعی ہے، اس کے زیر انتظام سینکڑوں مدارس چلتے ہیں، قدامت پسند مذہبی جماعت کا سربراہ ہے، عورتوں کی آزادی کا مخالف ہے، مخلوط تعلیم کو مناسب نہیں سمجھتا، شرعی پردے کو لازم قرار دیتا ہے، عریانی اور فحاشی کو معاشرے کی بےراہ روی کی وجہ گردانتا ہے اور جدید مغربی دنیا کے تصورات، جیسے ہم جنس پرستوں کی شادی یا مرد عورت کا بغیر نکاح کے اکٹھے رہنا، کا شدید ترین مخالف ہے اور دیگر معتدل جماعتوں کے برعکس اِن باتوں کو شخصی آزادی کی آڑ میں اجازت دینے کا بھی قائل نہیں۔ ایسے شخص کو ہماے لبرل بھائی بہنوں نے آج کل سر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے، دن رات مولانا کی بلائیں لے رہے ہیں، ان کے بیانات کو چوم چاٹ کر ٹویٹ کر رہے ہیں اور ان کی وڈیوز یوں شئیر کر رہے ہیں جیسے"تھڑے ہوئے" لڑکے ایک دوسرے کو مخصوص وڈیوز بھیجتے ہیں، ان کا بس نہیں چل رہا کہ اپنا گٹ اپ بھی مولانا صاحب جیساکر لیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ چمکتار کیسے ہوا، مولانا کی کایا کلپ ہوئی یا لبرل حضرات نے سروں پر صافے باندھ لیے، آخر اس ملن کے پیچھے وجہ کیا ہے؟

وجہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ لبرل چاہے جیسے بھی ہوں آخری تجزیے میں جمہوریت پسند ہی ہوتے ہیں، آئین کی حکمرانی میں یقین رکھتے ہیں، شخصی آزادی کے قائل ہوتے، عوام کے حقِ حکمرانی کا مطالبہ کرتے ہیں اور آزاد مملکت میں رہنا چاہتے ہیں جو کسی آئین، قانون اور ضابطے کے تحت چلتی ہو نہ کہ کسی آمر کی خواہشات کے طابع ہو۔ وہ نام نہاد لبرل جو بظاہر حرکتیں اور باتیں آزاد خیالی کی کرتے ہیں مگر وقت آنے پر کسی آمر کی گود میں چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں انہیں کسی بھی لغت میں لبرل نہیں کہا جاتا بلکہ پنجابی میں ان کے لیے بہت برا لفظ ہے۔ یہ وہی دو نمبر لبرل تھے جنہوں نے12 اکتوبر 1999کو سڑکوں پر بھنگڑا ڈالا تھا جبکہ اصلی اور وڈے لبرل وہ تھے جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز اٹھائی تھی چاہے وہ داڑھیوں والے مرد تھے یا دوپٹہ اوڑھنے والی عورتیں۔ کسی بھی سوسائٹی کو پابندیوں میں جکڑنا، ملک میں اختلاف رائے کو دبانا یا لوگوں کو اندیکھے خوف میں رکھنا زیادہ عرصے تک ممکن نہیں ہوتا، کم از کم ہمارے ملک کی تاریخ یہی بتاتی ہے، مگر ایسے میں مزاحمت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، لوگ مختلف قسم کے استعارے تلاش کرتے ہیں، علامتی افسانے لکھتے ہیں اور مبہم قسم کی شاعری کرکے حریت پسندی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ حق ایسے ادا نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے ہر قسم کی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر دو ٹوک بات کرنا پڑتی ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں، اور یہ ہر کسی کے بس میں بھی نہیں، خاص طور سے لبرلز کے بس میں تو بالکل نہیں، یہ لوگ کوئی منظم طاقت ہیں نا ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی قسم کا انقلاب برپا کر سکیں اس لیے یہ بیچارے اِدھر ُادھر دیکھتے رہتے ہیں کہ کون ہے جو اِس ملک میں آئین کی بالادستی کی بات کررہا ہے۔ چلیں اسی کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ لبرلز نے یہی ہاں میں ہاں مولانا کے ساتھ ملائی ہے۔ مولانا نے دراصل انہیں زبان دے دی ہے، اِسی لیے لبرل ان کے صدقے واری جا رہے ہیں، ایسا بالکل نہیں کہ وہ مولانا کے طرزِ زندگی سے متاثر ہو گئے ہیں یا مستقبل میں کسی لبرل خاتون کا ارادہ مولانا سے انسپائر ہو کر شٹل کاک برقع پہننے کا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اِس وقت ملک میں ایک سیاسی میدان موجود تھا، کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اِس میدان میں کسی کو للکارتا، مولانا نے صرف یہ کیا کہ خالی میدان میں اتر آئے، جگہ ہی جگہ تھی، سب انہیں مل گئی، ایسی ہی صورتحال کے لیے نپولین نے کہا تھا کہ فرانس کا تاج شاہراہ پر پڑا تھا میں نے اٹھا کر سر پر پہن لیا مگر پاکستان کا تاج یوں آسانی سے سر پر نہیں سجایا جا سکتا، اِس کے لیے قربانی دینا پڑے گی۔ سیاسی میدان ابھی بھی خالی ہے، مولانا فی الحال صرف نیٹ پریکٹس کر رہے، لبرل اور جمہوریت پسند طبقات اُن کی شاٹس پر تالیاں بجا رہے ہیں حالانکہ کہ ان میں سے کچھ کا دل نہیں چاہ رہا ہے کہ مولانا کو داد دیں مگر مصیبت یہ ہے کہ مولانا کے علاوہ کوئی بیٹنگ کے لیے تیار ہی نہیں، کسی کی کمر میں درد ہے تو کوئی ویسے ہی ان فٹ ہے۔ ایسے میں اکیلے مولانا صاحب کیا صرف نیٹ پریکٹس ہی کرتے رہیں گے یا ٹاس کرکے میچ بھی کھیلیں گے، جلد معلوم ہو جائے گا، بلی تھیلے سے باہر آنے والی ہے!

About Yasir Pirzada

Muhammad Yasir Pirzada, is a Pakistani writer and columnist based in Lahore. He is the son of famous Urdu writer Ata ul Haq Qasmi. His weekly column "Zara Hat Kay" in Daily Jang, Pakistan’s most widely circulated Urdu daily and his fortnightly column with the name "Off the beaten track" in The News, a leading English daily, addresses issues of an ordinary citizen in humorous style.

Yasir did his graduation from Government College, Lahore and then joined The Nation, an English daily. He later acquired post-graduate degree in Political Science from University of the Punjab and then joined Civil Services of Pakistan.

While doing his Masters from University of the Punjab, Yasir wrote some columns in daily Nawa-i-Waqt with the name of "Zara Hat Key". However, since November 2006, Yasir has been writing regular weekly column in Daily Jang; and since October 2009 a fortnightly column in the YOU Magazine of daily The News.

Check Also

Ghamdi Qarar Dena

By Amirjan Haqqani