طبقاتی تقسیم
طبقاتی تقسیم ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے دنیا بھر میں معاشی لحاظ سے کئی معاشی گروپس تشکیل دیئے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کے سبب سرمایہ دار امیر سے امیر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہر سال یو م مئی مزدور ڈے منایا جاتا ہے لیکن مزدور کی زندگی اور رہن سہن، ان کے خاندانی معاشی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ ان کے بچوں کو ہمیشہ بنیادی ضروریات زندگی کی کمی کا سامنا ہے۔ لگژری زندگی فقط ان کے خاندان کے لئے ایک خواب ہے۔ ایسے کون سے عناصر ہیں، کون سی رکاوٹیں ہیں جو مزدور کی زندگی اور طرز رہن سہن میں تبدیلی نہیں آنے دیتے ہیں۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہی معلوم ہو تا ہے کہ مزدور ہمیشہ مشکلات میں رہا ہے حالانکہ زندگی اور معیشت کا پہیہ چلانے میں دنیا بھر میں مزدور نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں مزدور کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین لیبر پالیسی کی شکل میں موجود ہیں۔ لیکن ان قوانین پر کتنا عمل در آمد ہوا، یہ سب کے سامنے ہے۔ مزدور طبقہ کو ہمیشہ معاشرہ نظر انداز کرتا ہے۔ حالانکہ وہ بھی انسانیت کا حصہ ہیں، کارل مارکس اور لینن کے سیاسی نظر بات اور فلسفہ دیکھیں تو اس نے مزدور کو منافع میں حصہ دار قرار دیا ہے اور سرمایہ درانہ نظام پر خوب تنقید کی ہے۔ بلکہ سیاسی فلاسفر افلاطون اور ارسطو نے معاشرہ کو طبقاتی جنگ میں تقسیم کر دیا ہے اور اشرافیہ کو اعلیٰ ترین طبقہ قرار دے کر معاشرتی نا انصافی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور مزدور طبقہ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ کبھی بھی اشرافیہ طبقہ میں شامل نہیں ہوسکتا۔
دنیابھر کے تمام ممالک کا اگر سیاسی لحاظ سے تجزیہ کریں تو یہ حقیقت سامنے ہے کہ سیاسی نظاموں میں مزدور طبقہ کو ہمیشہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے معاشی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی حقوق ہمیشہ نظر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے بچے ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتے اور اچھی اور بہتر زندگی کو ترستے ہیں۔ مزدور کی حالت کو ن بہتر کرے گا اور جو قوانین ان کی بہتری کے لئے بنتے ہیں اس پر عمل در آمد کون کروائے؟ ۔ کسان بھی اصل میں مزدور کے طبقہ میں آتا ہے کیونکہ وہ سارا سال محنت مزدوری کر کے فصلیں اگاتا ہے لیکن اس کی محنت کا پھل اس کو مناسب قیمت کی صورت میں نہیں ملتا۔ ملک میں معاشی بحران پیدا ہوتو سب سے زیادہ مزدور طبقہ متا ثر ہوتا ہے۔ نہ وہ بہتر تعلیم اور نہ بہتر صحت اپنے خاندان کو میسر کرسکتا ہے۔ مزدور کی اہمیت اور افادیت معاشرہ میں مسلمہ ہے۔ ملک کی معیشت مزدور کے بغیر نہیں چل سکتی ہے۔ مزدور معاشرہ کی تمام ضروریات تمام طبقات کے لئے پیدا کرکے ہمیں آسان اور با مقصد زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہے۔ پھر کیوں سرمایہ دار، جاگیرداراور صنعت کار طبقہ ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتا۔ مزدور کے سبب زندگی کا پہیہ چل رہا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے۔ شکاگو 1886مزدور پالیسی جلسہ اور تحریک کے بعد مزدورں کی حالت کس حد تک بہتر ہوئی سوائے اس بات کہ ہر سال مزدور ڈے گزر جا تا ہے۔ مزدور کے حق میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ ان کے حقوق کی حوصلہ افزائی ہوتی اور تقاریر کی جاتی ہیں۔ مزدور یونین دنیا بھر میں ریلیاں نکال کر اپنے حقوق کی جدو جہد کے لئے دنیا کو اپنے حقوق سے باخبر کرتے ہیں لیکن پھر بھی مزدور کی زندگی میں تبدیلی نہیں آسکی۔ اگر تبدیلی آسکتی ہے تووہ مزدور کے بارے میں اسلامی نظریہ پر عمل کرکے تبدیلی ممکن ہے۔ وفاقی منصوبہ بندی کمیشن نے پاکستان میں اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ سوا کڑور مزدور پاکستان میں بے روزگار ہونے کا امکان ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا ایسا معاشی نظام سامنے آئے جس میں مزدوروں کو ان کی محنت اور اوقات کو مد نظر رکھ کر معاوضہ ملے۔ مزدور کی عزت کو بھی معاشرہ میں بحال کرنا چاہیے۔ مخصوص طبقات ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم معاشرہ کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ جیسے اسلام میں زکوٰة کا نظام حل تلاش کرکے دیتا ہے۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے مزدور کی عزت کو بھی مقدم رکھا ہے۔ اسلام کے علاوہ دنیا کے تمام مذاہب میں مزدور کو انسانیت اور انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ مزدورایک مشین ہے جس کا کام ضروریات زندگی کو پورا کرنا ہے۔
عالمی تناظر میں مزدور کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اور نا اس کے پاس کوئی ٹیکنیکل ہنر ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنا معیار زندگی بہتر سے بہتر کرسکے۔ عالمی مزدور ڈے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدو جہد کو یاد کرنا ہے۔ شکاگو میں سرمایہ دار طبقہ کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خون میں نہلادیا دیا گیا۔ یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہے۔ اب تک یہ آوازیں اپنے حقوق کے لئے اٹھ رہی ہیں۔ اور محنت کش ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دن رات محنت کرکے صنعت کے پہیہ کو گھمار ہے ہیں۔ اگر مزدور اور کسان نہ ہو تو شائد زندگی کو رواں دواں طریقہ سے چلانا بھی مشکل ہوتا۔ مزدور معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کارل مارکس کا نظریہ مزدوروں کے حقوق کی بھر پور طریقہ سے نمائندگی کرتا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ ہم نے محنت کش طبقہ کو کس طرح اٹھا کر اوپر لے کر آنا ہے۔ اور ان کی ترقی کے لئے کیا اقدامات انفرادی سطح اور حکومتی سطح پر کرنے ہیں۔ مزدور کی مزدوری کا حق کس طرح ادا کرنا ہے۔ پاکستان ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا ہے اور یہاں موجود حالات میں مزدور کے حالات پہلے کی نسبت ابتر ہیں۔ اس لئے حکومت کو مو ذی بیماری کا اتنا خوف نہیں جتنا اس بات کا ہے کہ غربت کے مارے محنت کش کہیں سٹرکوں پر نہ نکل آئیں۔ لہذا مزدور قابل عزت اور قابل اعلی مقام ہیں۔ ان کے حقوق کی جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی۔ لیکن سوچنا یہ ہے کہ ان کی حالت درست کرنے میں ہم نے کیا کردار ادا کرنا ہے اور کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔