طلسمِ ہوش ربا
الف لیلوی کہانیوں کی بنیاد تو بغداد میں پڑی لیکن برصغیر میں بھی اس روایت کو خاصا فروغ ملا، منشی محمد حسین جاہ کی داستان "طلسمِ ہوشربا" (زمانۂ تحریر 1888-1889) منشی نول کشورپریس سے شائع ہوئی تو بھوت پریت، جنوں اور پریوں کی کہانیاں ہندوستان میں بھی عام ہو گئیں۔
مرزا رجب علی بیگ سرور (1758ء تا 1869ء) نے "فسانۂ عجائب" میں گل بکائولی، حاتم طائی اور داستان امیر حمزہ کے اجزا سے نئے کردار تخلیق کئے۔ جانِ عالم اور انجمن آرا کا قصہ مافوق الفطرت عناصر، سحر و طلسم کی کارروائی اور زبان و بیان کی شیرینی سے مرصّع ہے۔
یہ جادوئی داستانیں بہت طویل ہوتی تھیں، وقت کی تنگی ہوئی تو داستان کی بجائے ناول آ گئے۔ وقت اور تنگ ہوا تو افسانہ یا شارٹ اسٹوری آ گئی۔ ابھی شاید اس سے بھی کم اختصار والی کوئی صنف آ جائے۔ اصناف بدلنے کے باوجود انسانی احساسات و جذبات بالکل نہیں بدلے۔
خوشی، غم، غصہ، تکلیف، ڈر، محبت، نفرت اور تعصب آج بھی ویسے کے ویسے ہیں، ضعیف الاعتقادی البتہ کچھ کم ہوئی ہے لیکن موجود اب بھی ہے، جادو کے اثر پر آج بھی یقین کیا جاتا ہے، جن، بھوت اور ان کے اثرات پر اب بھی بحث رہتی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے، طلسم ہوش ربا کے جادوئی کھیل اب بھی جاری ہیں، اب ایک طرف سیاست کے جن ہیں تو دوسری طرف طاقت کے جن۔ نجومی کہہ رہے ہیں کہ اگلے دس دن میں اگلے دو سال کی سیاست کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ فسانہ عجائب کا ہیرو جان عالم، دیو مالائی داستانوں کی طرح کاحسین تھا، جان عالم اور ملکہ انجمن آرا کے حسن کے آج بھی چرچے ہیں۔
آج بھی جن اور بھوت ان کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں، اُن کو عالم غیب کی باتیں بتا دیتے ہیں اور تو اور حساس ترین موضوعات پر بھی انہیں اندر کی کہانی کی خبر دیتے ہیں۔ طاقت کا جن بھی جادو سے بے خبر نہیں، اسے بھی جادو کے منحوس اثرات کا علم ہے۔ دونوں جن ایک دوسرے کا طلسم توڑنے کے ماہر ہیں،
ایک مرد جن، طلسماتی لوح کے ذریعے دوسرے کے چراغ کو گل کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسری خاتون جن، طاقت کے دیوتا کے زیر اثر ہے۔ جب آج کا کوئی رجب علی بیگ سرور "نیا فسانہ عجائب" لکھے گا تو ان دو جنوں کی چپقلش کی کہانی ضرور لکھے گا۔ طلسم ہوش ربا کے اندر کئی تہہ در تہہ داستانیں ہیں۔ پہلے سیاست اور طاقت کے جن ایک ہی صفحہ پر تھے، اب یوں لگتا ہے کہ ورق الٹا جا رہا ہے، سیاست انگڑائی لے رہی ہے۔
مولانا کے دھرنے نے فی الحال وقتی طور پر سیاست اور میڈیا کے اسٹیٹس کو کو توڑ دیا ہے۔ گزشتہ 15 ماہ سے سیاسی شطرنج کے مہرے ایک ہی خانے میں جمے بیٹھے تھے، اب وہ متحرک ہو گئے ہیں، شطرنج کے بادشاہ کو نواز شریف کے باہر جانے کے ایشو پر پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ شاہ مات کا وقت تو اگلے سال مارچ، اپریل میں آنا تھا مگر پیادوں نے ایسی کھلبلی مچائی ہے کہ سیاسی اتار چڑھائو صاف نظر آنے لگا ہے۔
قاف لیگ اور نون لیگ ابتدائے آفرینش سے ایک دوسرے کا توڑ کر رہی ہیں مگر قاف لیگ کا نواز شریف کے لئے جذبۂ ہمدردی گرینڈ مسلم لیگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگلے دس دن میں بازی گر کیا فسوں کاری دکھاتا ہے۔ اگر تو جان عالم کے جن نے کام دکھا دیا تو پھر اگلے دو تین سال جانِ عالم کی گرد کو چھونا مشکل ہوگا لیکن اگر جان عالم کے جن کا توڑ کر لیا گیا تو ہما کسی اور سر پر بیٹھنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ طلسماتی دنیا کی کہانیاں عجیب و غریب ہیں، نواز شریف کی بیماری کے بعد انہیں باہر لے جانے کا معاملہ زیر بحث آیا تو جانِ عالم اور شہزادی انجمن آرا کے سائے زلف پجاری نے کھل کھلا کر ضمانتی بانڈ لینے کی حمایت کی بلکہ اس حمایت کی تشہیر کا بندوبست بھی کیا یوں شہزادی انجمن آرا کی بساط پر پیادوں کی چال کا اندازہ ہو گیا،
قیافہ شناسوں نے یہ بھی بوجھ لیا کہ اب انجمنِ آرا کے جن کے مقابلے میں بھی نسوانی جن ہے، اب لڑائی یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہے۔ بزکشی کے ماہر، پنجاب کے دُلہا کسی سے کم نہیں ہیں، دُلہا نے دو شادیاں کیں یا تین؟ اس کے دامن پر کوئی داغ ہے یا نہیں؟ اس کے بھائی کتنے ایماندار ہیں؟ یہ سب سازشی تھیوریاں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بد دستور جانِ عالم اور انجمن آرا کی حمایت حاصل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ سرائیکی دُلہا حد سے بڑھ کر اپنے مخالفوں پر توپ کے گولے بھی برسا رہا ہے۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دُلہا بھائی کی توپ اُدھر بھی چل گئی ہے جہاں بارود ہی بارود ہے اور وہاں آگ بھڑکنے کی اطلاع بھی ملی ہے۔ اگر دس دن میں کچھ نہ ہوا تو اس کی وجہ مفاہمت ہوگی اور مفاہمت میں وٹو، فیصل صالح فارمولا اپنایا جا سکتا ہے یعنی بزدار برقرار رہیں اور ان کے ساتھ طاقتور مشیر لگا دیا جائے جو ڈیلیور کر سکے اور دُلہا بھائی اسی طرح رنگ رلیاں مناتے رہیں۔
اس فارمولے پر غور و فکر جاری ہے مگر نہ یہ پہلے کامیاب ہوا تھا نہ اب کامیاب ہوگا۔ اندازے یہی تھے کہ دھرنے سے کچھ ہو نہ ہو، پنجاب میں تبدیلی کے لئے دبائو بڑھے گا اور توقع ہے کہ اگلے دو ماہ میں یہ دبائو کوئی نہ کوئی نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوگا۔
طلسم ہوش ربا کا سب سے کمزور کردار عوام ہیں، مہنگائی اور معاشی بدحالی نے ان کو پریشان کر رکھا ہے۔ ریلیف کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے، معاشی بابو خسارے میں کمی کے اعداد و شمار بتاکر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ سب طلسماتی دنیا کے کردار ہیں۔
مشیر خزانہ کو ٹماٹر کا نرخ تک پتا نہیں، کابینہ میں اکثر کو آٹے دال کا بھائو بھی معلوم نہیں ہوگا، ایسے میں کیا توقع کی جائے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ لگ یوں رہا ہے کہ انقلاب فرانس کے موقع پر ڈبل روٹی مانگنے والوں کو جس طرح کیک کھانے کا مشورہ دیا گیا تھا، وہی صورتحال یہاں پیدا ہو رہی ہے۔ بظاہر تاجروں کو ٹیکس میں ریلیف مل گیا،
ہڑتالیں ختم ہو گئیں لیکن کیا معاشی پہیہ چل سکا ہے؟ بظاہر ایسا نہیں اور اس کی وجہ 2بی کی ناراضی ہے، بزنس مین اور بیورو کریٹس عدم تعاون کی راہ پر گامزن ہیں، وہ نہ جارحیت کر رہے ہیں نہ مزاحمت، بس خاموشی سے عدم تعاون کرتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اُنہیں علم ہے کہ پہیہ اُن کے بغیر نہیں چلے گا۔