’’میں گلیاں دا روڑا کوڑا‘‘
خطہ پنجاب و کشمیر کے صوفی شاعر میاں محمد بخشؒ نے اپنی انکساری اور خاکساری کے اظہار کے لئے کیا خوب کہا تھا "میں گلیاں دا روڑا کوڑا"۔ ان کے ایک مداح اور ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے میں بھی ہر ایک کو اپنے سے زیادہ باعلم، باخبر اور عقلمند جانتا ہوں۔ کبھی کبھار سیاسی رائے یا تجویز دینے پر اپنے اور بیگانے گالیاں دینے پر اتر آتے ہیں۔ نکتہ رس بدنیتی کا الزام لگا دیتے ہیں، ان سب کے لئے فقیر یہی دعا کرتا ہے، سب کا بھلا سب کی خیر۔ گالیاں اور طعنے دینے والوں کی بھی خیر۔ ہم تو ہیں ہی روڑا کوڑا۔
خبر یہ ہے کہ حسین نواز شریف واپس نہیں آرہے کہ ان کے والد نواز شریف نے انہیں روک دیا ہے۔ حسین نواز نے والد سے پاکستان آنے کی اجازت چاہی تو میاں نواز شریف نے انہیں جوابی پیغام دیا کہ تمہارے واپس آنے سے والد اور بہن کے دکھ میں کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ اضافہ ہی ہوگا۔ تمہارے آنے سے قانونی دفاع کی ٹیم کے ساتھ رابطہ کون رکھے گا؟ یہ بھی کہا کہ تم جیل چلے گئے تو لاہور، لندن اور جدہ کے گھروں کے اخراجات اور معاملات کون دیکھے گا؟ تم قید ہو گئے تو دادی کے علاج کا انتظام کون کرے گا؟ حسین نواز شریف نے تین روز پہلے لندن میں ہونے والی ملاقات میں یہ ساری تفصیلات مجھے بتائیں۔ یاد رہے کہ ایک دو ماہ پہلے میری جدہ میں بھی حسین نواز شریف سے ان کے بیٹوں کی موجودگی میں تفصیلی ملاقات ہوئی تھی جس میں مَیں نے انہیں پاکستان آنے کو کہا تھا اور اس معاملے میں وہی دلائل دئیے تھے جو میں نے اپنے کالم "حسین نواز واپس آئو" میں لکھے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے میاں نواز شریف سے واپس آنے کی اجازت چاہی جو انہیں نہیں ملی، اس لئے اب وہ بیرونِ ملک بیٹھ کر ہی اپنے خاندان کی قانونی و اخلاقی امداد جاری رکھیں گے۔ فقیر کی رائے اب بھی وہی ہے، باقی فیصلے تو انہوں نے اور ان کے خاندان نے کرنا ہیں، وہی بہتر جانتے ہیں۔ روڑا کوڑا کچھ کہہ بھی دے تو ان کے خیر اندیش معاف فرمائیں، جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ ہوا میں نہیں ہوتا، اس کے پیچھے بھی کئی کہانیاں ہوتی ہیں جو وقت آنے پر سامنے آتی ہیں۔
دو ہفتوں بعد وطن واپس لوٹا ہوں تو کشمیر کی وجہ سے فضا مغموم ہے، یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں آباد پاکستانی، مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں انضمام اور پھر کشمیر میں کرفیو اور بدترین حالات پر بہت دل گرفتہ ہیں۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں کشمیریوں کے حق میں اور مودی کے خلاف عظیم الشان مظاہرہ ہوا۔ مانچسٹر کے جلسے میں شیخ رشید اور بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی شامل ہونے کا موقع ملا۔ ہر جگہ سوگ، احتجاج اور ردعمل موجود ہے، اصل بات مگر یہ ہے کہ کشمیر پر اب راہِ عمل کیا ہے اور وہ کون طے کرے گا؟
شریف خاندان کے غیر سیاسی ستارے سلمان شہباز شریف سے ملاقات کا موقع بھی ملا، وہ پاکستان کے سیاسی تنفس سے مکمل طور پر اَن ٹچ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ اپنے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات کو غلط ثابت کر دیں گے کیونکہ قانونی طور پر ان کے خلاف کچھ بھی بنایا نہیں جا سکا۔ ان کا اندازہ یہ تھا کہ عمران حکومت معیشت کو سنبھال نہیں سکے گی اور بالآخر خود مسائل کے گرداب میں الجھ کر رہ جائے گی۔
دورۂ برطانیہ ہی کے دوران شیخ رشید احمد اور عمران خان کے ذاتی دوست انیل مسرت سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ شیخ رشید احمد بڑے پُرامید ہیں کہ اگلے سال سے ملک کے معاشی حالات میں بہتری آئے گی۔ انیل مسرت معاشی اشاریوں اور عالمی منڈی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ معیشت کے بارے میں فکرمندی کا اظہار تو کرتے رہے لیکن ان کا تجزیہ یہ تھا کہ حالات میں جلد ہی تبدیلی آئے گی۔
کالم کا آغاز روڑے کوڑے سے ہوا تھا، ایسا لگ رہا ہے کہ روڑے کوڑے کی سنی نہیں جا رہی، مہنگائی کا کوئی توڑ سامنے نہیں آیا۔ معیشت کی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی، نوکر شاہی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لوگوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور ان کا حل کرنے والا کوئی نہیں۔ کوئی مانے نہ مانے، سنے نہ سنے، کامیاب اصولِ حکمرانی یہی ہے کہ جس ملک کے عوام معاشی طور پر خوشحال ہوں، وہی حکمران کامیاب ہے۔ اگر عوام معاشی طور پر تنگ ہوں تو پھر وہ حکمران ناکام ہے۔ عام عوام وہ روڑے کوڑے ہیں جو بظاہر حکمرانوں کی ٹھوکر پر ہوتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہی روڑے کوڑے طوفان بن جاتے ہیں، یہی ریزے پہاڑ بن کر ڈٹ جاتے ہیں۔
عمران خان اور ان کی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا، اب ان کا ڈیلیوری کا وقت ہے، اب انہیں کچھ کر کے دکھانا ہے۔ ان کی معاشی، تعلیمی، صحت اور معاشرتی پالیسیوں کے ثمرات سامنے آنا چاہئیں۔ روڑے کوڑوں نے ان سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اب ان میں سے کچھ پوری کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پہلے عمران کی غلطیاں ان کے سحر، دل کشی اور مقبولیت کے مضبوط ہیولے میں جذب ہو جاتی تھیں مگر اب ان کی ہر ایک غلطی سے دھواں اٹھے گا اور اس دھویں کے اثرات ان پر پڑیں گے۔ ان کے لئے میک اور بریک کا وقت آگیا ہے، ان کی حکومت نے کامیاب ہونا ہے یا ناکام، اس کا فیصلہ دسمبر تک ہو جائے گا۔ اگر معاشی اشاریے درست نہ ہوئے، روڑے کوڑے کی حالت نہ بدلی، عوام کے آنسو نہ پونچھے گئے تو پھر زوال کا سفر شروع ہوگا۔ ایسے میں ایک ہی صفحے پر ہونے والے دوست بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، مشورہ یہی ہے کہ روڑوں کوڑوں کی آہوں کو سنا جائے اور دن رات لگا کر معیشت کا پہیہ چلایا جائے۔