Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Shahid Mehmood
  3. Sehat Ka Dharna

Sehat Ka Dharna

صحت کا دھرنہ

لاہور شہر میں ینگ ڈاکٹروں، نرسوں اور ہیلتھ ورکروں نے پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنہ دے رکھا ہے اور اکیس دن سے سینکڑوں مظاہرین اپنے کام کاج چھوڑ کر تپتی دھوپ میں بیٹھے ہیں اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ پنجاب کے ہسپتالوں کی نجکاری کو روکا جائے اور صحت سے متعلق ملازمین کی نوکریوں، پنشنوں اور دیگر مراعات کو تحفظ دیا جائے۔ یہ ملازمین ایک طرف تو خود اپنی ڈیوٹی سے مسلسل غیر حاضر ہیں اور دوسری طرف ڈاکٹروں اور ہیلتھ ملازمین پر مشتمل گرینڈ ہیلتھ الائنس کے رہنماؤں نے دو ہفتے سے تمام چھوٹے بڑے ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور بھی بند کر رکھے ہیں۔

دھرنے میں بیٹھے ملازمین کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان سے بات چیت کرکے اور ان کے تمام مطالبات کو من و عن قبول کر لے جبکہ دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ وہ کسی بھی ملازم کو فارغ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے اور جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے کسی قسم کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے اور دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور یہاں تک کہ حکومت کو دھرنہ دینے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن چلچلاتی گرمی میں سڑک پر بیٹھے ملازمین اپنے مطالبات تسلیم نہ ہونے پر گزشتہ روز وزیر اعلٰی ہاؤس پر چڑھ دوڑے اور پولیس کے ذرائع کے مطابق مظاہرین نے جب وزیر اعلیٰ ہاؤس کے گیٹ پر چڑھ کر املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو ان میں سے کچھ افراد کو گرفتار کرکے موقع سے ہٹایا گیا جبکہ دوسری طرف سے گرینڈ ہیلتھ الائنس کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ ان پر شدید تشدد کیا گیا ہے اور خواتین پر بھی لاٹھیاں برسائی گئی ہیں اور ساتھ ہی مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ پرامن ہیں اور حکومت ان پر تشدد کرکے اپنے لئے مسائل پیدا کررہی ہے۔

میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ دھرنہ سیاست کا اختتام ہمیشہ پر تشدد احتجاج پر ہی اختتام ہوتا ہے اور اب جبکہ تمام ہسپتالوں کی انڈور اور آپریشن تھیٹروں کو بھی بند کر دیا گیا ہے اور گزشتہ روز جنرل ہسپتال سمیت لاہور کے بقیہ ہسپتالوں میں آپریشن کی غرض سے آئے سینئر ڈاکٹروں کو تھیٹر سے نکل جانے کو کہا گیا اور ساتھ ہی تھیٹروں کے اندر سے مریضوں کو باہر دھکیلا گیا تو اس طرح ڈاکٹر حضرات نے خود ہی پر تشدد اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ احتجاج کرتے ہوئے پرامن افراد پر تشدد نہیں ہونا چاہئیے لیکن ایک بیمار مریض کو تھیٹر سے باہر نکال دینا پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس سے بھی زیادہ پرتشدد واقعات ہیں جن کی مثال کسی بھی مہذب معاشرے میں موجود نہیں اور اگر ان مریضوں میں سے کچھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو یقیناً ان کی موت کی ذمہ داری بھی احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کے سر ہی ہوگی اور حکومت کو چاہئیے کہ ایسے واقعات کا تعین کرکے سزا ضرور دے۔

دوسری طرف اکیس دن سے مال روڈ پر بیٹھے مظاہرین وقت کے ساتھ تھکاوٹ کا شکار ہو رہے تھے اور بہت سارے احتجاجیوں کو مایوس ہوتے دیکھا گیا تو ان کے لیڈران نے پرامن دھرنے کو خود تشدد کی طرف موڑا ہے تاکہ حکومت کی طرف سے ردعمل میں کاروائی ہو اور کچھ افراد زخمی ہوں یا زندگی سے چلے جائیں تو تحریک میں جان آ جائے گی اور یہ سوچ صرف ہیلتھ ورکروں کے احتجاج کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر اس احتجاج میں یہی مقصد شامل ہوتا ہے جہاں دونوں فریق بیٹھ کر بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے اعصاب کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کی حکومتوں کو کسی بھی پالیسی کو نافذ کرنے سے پہلے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہئیے اور یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ہے کہ حکمران بغیر کسی ہوم ورک کے جب نظام کو تبدیل کرنے لگتے ہیں تو ایک طرف تو لوگوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے تو دوسری طرف عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہی کچھ آج پنجاب کی سڑکوں اور ہسپتالوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں حکومت اور محکمہ صحت کے ملازمین دست و گریباں ہیں اور اس کا خمیازہ ہسپتالوں میں غریب مریض بھگتتا ہے تو دوسری طرف سڑکیں بند ہونے سے تاجروں اور عوام کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

وطن عزت کی بدقسمتی دیکھیں کہ ہماری تاریخ لانگ مارچوں اور دھرنوں سے بھری ہوئی ہے اور ہم عجب لوگ ہیں راستوں کو بند کرنے کو پرامن احتجاج کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی شخص کے اقدام سے دوسروں کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو وہ اقدام کسی طور پر بھی پرامن نہیں رہتا بلکہ ذہنی اور جسمانی تشدد کی وجہ بنتا ہے اور یہاں تو حالت یہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات ہسپتالوں کو بند کرکے اور اپنے ہسپتالوں سے غیر حاضر رہ کر حکمرانوں کے خلاف باغیانہ تقریریں کررہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم تو پرامن ہیں اور حد تو یہ ہے کہ یہ موقف اس طبقے کا ہے جو معاشرے کے سب سے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔

دھرنے کی یہ روایت بڑی غلط ہے اور اگر یہ روایت ختم نہ ہوئی تو پھر کل ہسپتالوں میں مریض کے لواحقین دھرنہ دے کر بیٹھ جائیں گے اور میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کے دفتر پر چڑھ دوڑیں گے اور کہیں گے کہ ہمارا علاج نہیں ہوتا اور ہم پرامن طور پر ایم ایس آفس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali