ہڑتال مریضوں پر ظلم ہے

پنجاب میں ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کے مشترکہ گرینڈ ہیلتھ الائنس نے ایک ماہ سے صحت کا سارا نظام منجمد کر رکھا ہے اور چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں آؤٹ ڈور کے بعد آپریشن تھیٹروں اور وارڈوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ میں نے اپنے کالموں میں بار بار یہ بات کہی ہے کہ ہسپتالوں کو بند کرنا مریضوں پر ظلم ہے اور ہڑتال سے عملی طور پر ملازمین کی تحریک کمزور ہوئی ہے اور قانونی لڑائی سے پہلے ہی یہ لوگ اخلاقی طور پر ساری ہمدردیاں کھو چکے ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ڈاکٹر حضرات اور ہسپتالوں سے وابستہ ملازمین نے ہڑتال کرکے ہسپتالوں کو بند کیا ہے بلکہ پچھلے چند سالوں میں ذرا ذرا سی بات پر آؤٹ ڈور کو بند کرکے اپنے مطالبات منوانا معمول بن گیا تھا۔ میں گزشتہ کالم اس طرف توجہ دلاتا رہا ہوں کہ ڈاکٹروں کو ہسپتال بند نہیں کرنے چاہئیے ہیں کیونکہ ایسے عمل سے ان کی تحریک مسلسل متنازعہ ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے حکومت نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ کسی طرح سے ینگ ڈاکٹروں کے اس اتحاد کو توڑا جائے جو آئے دن ہسپتالوں کے نظام کو مفلوج کردیتا ہے۔
موجودہ پرائیویٹ پارٹنر شپ کا جو فارمولہ نجکاری کی صورت میں سامنے آیا ہے، اس میں بھی حکومت ہسپتالوں کو فنڈ فراہم کرے گی لیکن تکنیکی طور پر ان تمام ہسپتالوں کے معاملات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے اس ایکے کو توڑنا چاہتی ہے جو حکومتوں کے لئے مشکلات کی وجہ بنتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے دھرنے کے فیصلے نے ان کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے جس میں واپسی کا راستہ بھی بظاہر نظر نہیں آتا ہے اور حکومت نے سخت کاروائی کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹیوں سے مسلسل غیر حاضر رہنے والے ملازمین کی تنخواہیں بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سے پہلے ہی پنجاب حکومت ایک سرکلر کے ذریعہ تمام ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کی چھٹیاں منسوخ کر چکی ہے اور اب اطلاعات ہیں کہ کچھ ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے ان کے لائسنس بھی معطل کر دئیے گئے ہیں جبکہ چند دن پہلے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے ہونے والے احتجاج کے نتیجہ میں کئی ڈاکٹروں پر مقدمات بھی درج کئے جا چکے ہیں لیکن ان ساری کاروائیوں کے باوجود بھی ہسپتالوں میں کام شروع نہیں ہو سکا ہے اور آؤٹ ڈور سمیت آپریشن تھیٹر بند پڑے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق کا موقف بھی سامنے آچکا ہے کہ حکومت کسی طور پر بھی اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور مجوزہ آؤٹ سورسنگ کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ کر رہے گا۔ دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ڈاکٹروں پر دہشت گردی کے مقدمے قائم کرکے بڑی زیادتی کی ہے اور ایسی بربریت کا مظاہرہ پہلے کبھی کسی حکومت نے ڈاکٹروں اور پڑھے لکھے افراد کے ساتھ روا نہیں رکھا ہے۔ ایسی صورت میں بظاہر حکومت ہیلتھ ملازمین کو کچلنے کا پلان کر چکی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس سارے کھیل کا نشانہ بیچارہ مریض ہی بنا ہے جو علاج کی بنیادی سہولت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور وہ ڈاکٹر حضرات پریشانی کا شکار ہیں جو سیاست سے الگ تھلگ رہ کر صرف مریضوں کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ لڑائی اور جنگ سے کبھی نتائج حاصل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہر لڑائی میں ہار اخلاقیات کی ہی ہوتی ہے۔ میری ہمدردیاں ڈاکٹر حضرات اور نرسز کے ساتھ ہیں لیکن یقین جانئیے کہ پچھلے چند سالوں میں جس طرح سے ینگ ڈاکٹروں نے ہڑتال کی سیاست کی ہے تو ان کی دشمن ان کا وہی طرز عمل ہے جس میں ہڑتالوں سے ہسپتالوں کو بند کیا جاتا رہا ہے۔ ینگ ڈاکٹر سمجھتے رہے ہیں کہ وہ بڑی قوت بن چکے ہیں جبکہ ہر ہڑتال کے بعد وہ خود اپنی طاقت کے محور میں ایک بڑا چھید ڈالتے رہے ہیں۔ ہسپتالوں کی ہڑتال جوکہ کبھی بڑی خبر ہوا کرتی تھی اب ایک معمول کی بات بن چکی ہے جس سے میڈیا سمیت مختلف سول سوسائٹی کی تنظیموں کی توجہ ہٹ چکی ہے اور ساتھ ہی جن مریضوں کو علاج میں مشکلات آتی ہیں وہ بھی ڈاکٹروں کے طرز عمل سے مایوس ہو چکے ہیں۔
مریضوں کا کہنا ہے کہ یہ کیسی ہڑتال ہے جو سرکاری ہسپتالوں کی حد تک محدود ہے جبکہ یہی ڈاکٹر شام کے وقت پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکوں پر بڑی پابندی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ میں نے ساہیوال کے واقعہ کے وقت بھی کہا تھا کہ ینگ ڈاکٹر ذرا ذرا سی بات ہر ہڑتال کرکے خود کو کمزور کررہے ہیں۔ یقین جانئے موجودہ ہسپتالوں کی ری سٹرکچرنگ کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ساہیوال واقعہ ہی بنا ہے جس میں وزیر اعلیٰ کے اقدام کو چیلنج کرکے ساری ڈاکٹر کمیونٹی اکٹھی ہوگئی تھی اور صحت کا نظام جام ہوگیا تھا تب ہی وزیر اعلیٰ فیصلہ کر چکی تھیں کہ ملازمین کے اس بڑے گٹھ جوڑ کر کسی طرح سے توڑنا ہے۔ آج وہی ہڑتال پورے محکمہ صحت کے لئے امتحان بن گئی ہے اور لگتا نہیں ہے کہ حکومت اب کی بار اس سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے دے گی جب خود صحت کے ملازمین ہڑتال اور دھرنے سے عملی طور پر تھک چکے ہیں اور مزید گھروں کو چھوڑ کر خواتین سڑکوں پر بیٹھ نہیں سکتی ہیں۔
پولیس سے جھڑپوں کے بعد اب ڈاکٹر حضرات پروپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں پر شدید تشدد کیا گیا ہے لیکن ابھی تک کسی بھی شدید زخمی ڈاکٹر کی تصویر سامنے نہیں آسکی ہے اور ساتھ ہی ان ڈاکٹروں کو اعتراض ہے کہ ان پر مقدمات درج کروا کر زیادتی کی گئی ہیں جبکہ ڈاکٹروں اور ملازمین کا اپنا رویہ بھی سفاکانہ ہے جن کی نوکری مریضوں کے علاج سے چلتی ہے لیکن انھوں نے اپنی شاہانہ نوکریوں کو زندہ رکھنے کے لئے مریضوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگادی ہیں۔
اصل میں حقیقت یہی ہے کہ ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کو علم ہے کہ اب انھیں اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں حاضر رہنا ہوگا اور یہ حاضری لگا کر غائب ہونے والا کلچر نہیں چلے گا اور ساتھ ہی پوری ڈیوٹی دینے کے بعد یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ سرکاری ڈاکٹر پرائیویٹ نوکریاں اور کلینک چلا سکیں گے اور نہ ہی دوسری ملازمین ڈیوٹی اوقات میں اپنی لیبارٹریاں اور ڈسپنسریاں چلا سکیں گے اور پھر چند گھنٹے کی نوکریوں کے بعد یہ لوگ پنشن کے مزے بھی لوٹتے رہیں گے۔
ملازمین یہ واویلا تو کرتے ہیں کہ اگر ان کی پنشن ختم ہوگئی تو ان کے بچے بھوکے مر جائیں گے جبکہ حقیقت یہی ہے کہ چند لاکھ سرکاری ملازمین کے علاؤہ کروڑوں لوگ تو بغیر پنشن کے ہی زندگی گزار رہے ہیں اور خاص طور پر وہی مریض جن کو دھتکار کر یہ لو گ پنشن لیتے ہیں ان کی اکثریت بھی پنشن کے بغیر ہی زندہ ہے اور اکثر لوگ بارہ بارہ گھنٹے سخت مزدوری بھی کرتے ہیں۔
اس وقت کے جو ملکی حالات ہیں تو دس کھرب روپے سے زیادہ کی پنشن تیس لاکھ لوگ لے لیتے ہیں اور ان کی پنشنوں کے لئے ملک قرضوں میں ڈوبتا جا رہا ہے جس کا خمیازہ پھر وہی مریض ٹیکسوں کی صورت میں دیتا ہے۔ ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکر تو پھر بھی دو دو نوکریاں اور کاروبار کر لیتے ہی۔ کیونکہ ان کے ورکنگ اوقات بڑے محدود ہیں لیکن زیادہ تر عوام تو دن رات کام کرکے بھی روٹی پوری نہیں کر پاتی ہے اور علاج کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں جاتی ہے تو سوائے چند ڈاکٹروں اور ملازمین کے باقی انھیں دھتکارتے نظر آتے ہیں۔
یقین جانئیے کہ اگر لوگوں کے پاس پیسہ ہو تو کوئی شخص بھی سرکاری ہسپتال میں علاج نہ کرائے۔ میرے اپنے دوست ڈاکٹر اکثر مشورہ دیتے ہیں کہ سرکاری ہسپتال میں آپریشن کروانے کا مطلب کئی نئی بیماریاں ساتھ لے کر جانا ہے اور خود وہ لوگ اپنے خاندانوں کو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر یہ تو سراسر زیادتی ہے کہ حکمران اور ڈاکٹر عوام کو قربانی کا بکرا بنا کر کبھی ہڑتال کرکے دھتکار دیں اور کبھی علاج کے نام پر بیماریاں بانٹیں۔ تمام ہیلتھ کے ملازمین سے صاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تمہیں مریضوں کے علاج کی فکر نہیں ہے تو ساری سوسائٹی کو تمہاری نوکریوں اور مراعات کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔

