طلبہ یونین کی بحالی ایک بڑا چیلنج
طلبہ یونین کی حمایت اور مخالفت میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ حمایت اور مخالفت کرنے والے اپنے اپنے فکری دلائل کے ساتھ اپنا اپنا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔ اس میں جہاں عقلی و فکری دلائل ہیں تو وہیں ہمیں کچھ جذباتیت کے پہلو بھی ہیں۔ کوئی اسے طلبہ کی تعلیم کے تناظر میں ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے تو دوسرا اسے بنیادی انسانی و جمہوری حق کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔ سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین کے حق میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متفقہ قرار داد منظور ہو چکی ہے اور بقول سندھ حکومت بہت جلد صوبے میں طلبہ یونین کو بحال کر دیا جائے گا۔ اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے بھی طلبہ یونین کی مشروط حمایت کا عندیہ دے کر اس بحث میں اور زیادہ شدت پیدا کر دی ہے۔
بنیادی طور پر پانچ بڑے اعتراضات طلبہ یونینز کے تناظر میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ اول طلبہ کا بنیادی مقصد تعلیمی اداروں میں اپنی تعلیم پر توجہ دینا ہے اور کوئی ایسی سماجی یا سیاسی سرگرمی کی حمایت نہ کرنا جو تعلیم میں رکاوٹ بنتی ہے۔ دوئم طلبہ یونین کے نام پر تعلیمی کے اداروں میں قبضہ کی جنگ اوراس کے نتیجہ درسگاہوں میں بدامنی کا پیدا ہونا، سوئم سیاسی جماعتوں کی مداخلت اور طلبہ یونین کا سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننا، چہارم تشدد، اسلحہ کا استعمال، پنجم تعلیمی معیار کی گراوٹ شامل ہیں۔ ان ہی خرابیوں یا مسائل کی بنیاد پر دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ طلبہ یونین کی کوئی افادیت نہیں اور ان کی بحالی کی کسی بھی سطح پر حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طلبہ یونین کے نام پر بہت سی خرابیاں موجود تھیں اور اس میں جہاں طلبہ تنظیموں کی اپنی غلطیاں اور نااہلی تھیں وہیں ہم کو سیاسی جماعتوں کی مداخلت ا ور ان کو اپنے مفاد کے حق میں استعمال کرنے کی روش بھی خرابی کی وجہ بنی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ان خامیوں یا کوتاہیوں کو ختم کرنے کے بجائے ان پر پابندی لگا کر مسئلہ کا حل تلاش کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ یونین سے جڑے مسائل کو تو بہت شدت کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے اور اٹھایا بھی جانا چاہیے، لیکن یہ بھی بددیانتی ہوگی کہ ہم اس کے مثبت اور اچھے پہلووں کو نظر انداز کرکے اس کی افادیت کو ہی چیلنج کر دیں۔
یہ جو دلیل دی جا رہی ہے کہ طلبہ کا کام محض تعلیم تک خود کو محدود کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ طلبہ و طالبات کو معاشرے میں ہونے والی سیاسی، سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں سے خود کو علیحدہ رکھنا ہے۔ طلبہ کو 18 برس کی عمر میں ووٹ ڈالنے کی اجازت تو ہے مگر وہ ریاستی و حکومتی امور سمیت سیاست اور سماج سے جڑے معاملات پر نہ تو بات کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے چیلنج کر سکتے ہیں۔ یعنی ہم طلبہ و طالبات کو ایک غیر سیاسی ذہن میں بدلنا چاہتے ہیں جو آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں آج بھی جمہوریت بدستور ارتقائی عمل سے گزر رہی ہو اور جہاں سیاسی جماعتوں سمیت سیاسی نظام کمزور ہو وہاں نوجوانوں میں سیاست، جمہوریت اور سیاسی عمل کو ایک گالی بنا کر پیش کرنا درست نہیں۔ جہاں تک طلبہ میں تشدد اور اسلحہ کی سیاست تھی اس کی ذمے دار براہ راست اس وقت کی ریاستی اور حکومتی سوچ تھی جو خود طلبہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی تھی۔ ایک وجہ یونین کے تسلسل سے ہونے والے انتخابات پر پابندی تھی اور اس کے پابندی کے نتیجے میں تشدد اور ان تعلیمی اداروں میں قبضوں کی جنگ میں شدت پیدا کی۔
اگر تسلسل سے انتخابات ہوتے رہتے تو خرابیوں کا خاتمہ ہو سکتا تھا اور ہر برس آنے والی نئی قیادت پرانی قیادت کا متبادل ہو سکتی تھی۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کی براہ راست مداخلت کی بات ہے تو اس کے لیے سیاسی سطح پر سیاسی جماعتوں اور طلبہ یونین سمیت تعلیمی اداروں کے درمیان کوئی ضابطہ اخلاق بن سکتا ہے۔
اگرچہ ماضی میں بھی ضابطہ اخلاق بنے تھے لیکن جب اس وقت حکومت خود ضابطہ اخلاق پر عمل نہیں کرے گی تو دیگر جماعتیں کیسے کر سکتی تھیں۔ یہ پہلو بھی سمجھنا ہو گا کہ طلبہ یونین کے نتیجے میں صرف سیاست میں ہی قیادت پیدا نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں ہمیں وہی لوگ زیادہ متحرک اور فعال نظر آتے ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی شکل میں طلبہ یونین کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ پاکستان میں دو سطحوں پر نئی نسل ایک بہتر سیاسی اور سماجی قیادت پیش کر سکتی ہے۔ اول مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط اور موثر بنا کر اور دوئم تعلیمی اداروں کی سطح پر ان کی یونین کے حق کو تسلیم کر کے ان اداروں سے مستقبل کی قیادت پیدا کرنا ہے۔
بدقسمتی سے ان دونوں سطحوں پر پابندی ہے اور مقامی نظام کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اور طلبہ یونین پر پابندی کے نتیجے میں قیادت کا ہر سطح پر فقدان نظر آتا ہے۔ ریاست اورحکومت کا نظام بنیادی طور پر مزاحمت کے عمل کو طاقت دینے کے لیے تیار نہیں اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو اس عمل سے دور رکھا جائے کہ وہ ریاست اور حکومت کے معاملات پر سوالات اٹھائیں۔
یہ ہی عمل اب تعلیمی اداروں کے سربراہان بھی چاہتے ہیں کہ ان کے معاملات کو طلبہ یونین بنا کر چیلنج نہ کیا جائے۔ اس لیے جو دوست طلبہ یونین کی مخالفت کرتے ہیں اس کا براہ راست فائدہ ان ہی قوتوں کو ہوتا ہے جو نوجوانوں کو ایک مخصوص دائرہ کار میں محدود کرنا چاہتی ہیں۔ اب وقت ہے کہ خود سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان کوطلبہ یونین کے حق میں ایک نئی جہت، فکر، سوچ اور طریقہ کار کو سامنے لانا ہو گا۔ بدقسمتی سے ہماری پارلیمنٹ اس بنیادی مسئلہ کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے خاموش ہے۔
اس لیے سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ طلبہ یونین کی افادیت نہیں اور طلبہ کو اس عمل سے دور رہنا چاہیے۔ بنیادی سوال یہ اٹھنا اور بحث میں آنا چاہیے کہ ماضی کے تجربات کی بنیاد پر اگر آج طلبہ یونین کو بحال کرنا ہے تو اس کی کیا شکل ہونی چاہیے۔ وہ تمام غلطیاں چاہے وہ کسی بھی جانب سے ہوئی ہیں اس کا اعادہ کرنا اور ختم کر کے ہی طلبہ یونین کی بحالی کے حق کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہی دانش مندی ہو گی۔ وہ لوگ جو خود ماضی میں کسی نہ کسی شکل میں طلبہ یونین سے جڑے رہے ان کی اپنی مخالفت بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
وہ مسئلہ کا حل پیش کرنے کے بجائے خود پابندی کی حمایت کر کے نئی نسل سے بنیادی جمہوری اور آئینی حق چھیننا چاہتے ہیں۔ اس لیے اصل بحث طلبہ یونین کی بحالی کے تناظر میں سیاسی جماعتوں، اہل دانش، میڈیا، رائے عامہ بنانے والوں، طلبہ یونین کے موجود نمایندوں، تعلیمی اداروں کے سربراہان، تعلیمی ماہرین، سابق طالب علم رہنماوں، ارکان اسمبلی، انتظامی اداروں اور حکومت کی سطح پر ہونی چاہیے کہ کس شکل میں طلبہ یونین بحال ہونی چاہیے۔
ہمیں باہر کے تعلیمی اداروں کے تجربات سے بھی سیکھنا ہو گا کہ انھوں نے طلبہ کو ایسے کونسے بنیادی حق اور طریقہ کار وضع کیے ہوئے ہیں جو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی اور سماجی شعور کو پختہ کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جو لوگ طلبہ یونین کے حامی اور مخالف ہیں ان میں ایک نیا مکالمہ درکار ہے جو مسئلہ کے حل میں معاون ثابت ہو اور سب کے لیے قابل قبول ہو۔ کیونکہ ہم سب کے پاس ماضی کے طلبہ یونین کے تناظر میں اچھے اور برے تجربات ہیں اور ان سے سیکھ کر ہم مستقبل کی بہتر حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں جو پابندی کے بجائے پرامن اور فکری انداز میں یونین کے حق کو بحال کر سکے۔