سیاسی جماعتوں کے داخلی مسائل
جمہوریت اور سیاست کی کامیابی کا براہ راست انحصار سیاسی جماعتوں کے داخلی جمہوری وسیاسی نظام، طرز عمل سمیت پالیسیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ جمہوریت دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اول داخلی جمہوریت سے جڑے مسائل اور دوئم خارجی جمہوریت پر مبنی مسائل ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں، قیادتیں اور جمہوریت سے جڑے اہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے جمہوریت سے جڑے خارجی مسائل پر تو بہت زور دیتے ہیں، مگر داخلی جمہوری مسائل پر ان کے بیانیہ میں وہ شدت نہیں ہوتی جو جمہوری معاشروں کو درکار ہوتی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں جمہوریت سے جڑے مسائل میں جہاں بہت سے عوامل ہیں ان میں ایک بڑا مسئلہ سیاسی جماعتوں کے اپنے داخلی نظام ہوتا ہے۔ یہ نظام جمہوریت کو بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے او رمعاملات کو جمہوری چھتری کے نیچے تو چلاتا ہے مگر فیصلہ سازی کا عمل نہ تو جمہوری ہوتا ہے او رنہ ہی شفافیت پر مبنی ہوتا ہے۔
سینیٹ کے حالیہ چیرمین کی تبدیلی کے تناظر میں اٹھنے والی بحث اور اکثریت کا اقلیت میں بدلنا او رچیرمین سینیٹ کی تبدیلی کا نہ ہونا نے بہت سے حلقوں میں جمہوریت، سیاست، اخلاقیات او راصولوں کی نئی بحث کو چھیڑ ا ہے۔ اہل دانش ماتم زدہ ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا ور کیونکر ارکان نے اصولی، جمہوری او راخلاقی سیاست کی قدروں کو پامال کیا۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ہی ہماری سیاسی تاریخ ہے او ریہ عمل پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہر بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کی عملی سیاست ہی طاقت کے کھیل کے گرد گھومتی ہے۔ اس طاقت کے کھیل میں جمہوریت، اخلاقیات، اصول، نظریات سب ہی بڑے سیاسی ہتھیار ہوتے ہیں۔ طاقت سے جڑے کھلاڑی ان اصولوں کو بنیاد بنا کر اپنی ذاتی ومفاداتی سیاست کے تانے بانے مضبوط کرتے ہیں۔ اس کھیل میں اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ بیچاری جمہوریت ہی ہوتی ہے او را س عمل میں سیاسی فریقین خود سیاست او رجمہوریت کا تماشہ بناتے ہیں۔
اصل بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں داخلی سطح پر اپنا ایک مضبوط سیاسی او رجمہوری نظام یا کلچر پیدا نہیں کرسکیں۔ یہ ہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں ہر فریقین کی سطح پر تلاش کرنا چاہیے۔ ان مسائل کا حل محض ردعمل کی سیاست یا لفظوں کی جنگ سے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے تین بنیادی نوعیت کے کام درکار ہیں۔
اول ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتیں کم اور ذاتی طور پر خاندانوں کی جاگیریں بن کر رہ گئی ہیں۔ یعنی سیاسی جماعتیں ادارہ سازی کے بجائے افراد یا خاندان کے گرد گھومتی ہیں۔ دوئم سیاسی جماعتوں کا داخلی جمہوری نظام غیر جمہوری، غیر منصفانہ او رغیر شفاف ہے اوراس میں آمرانہ طرز عمل بھی نظر آتا ہے۔ سوئم سیاسی جماعتوں کا فیصلہ سازی کا عمل سمیت ان کے پاس نظام کو تبدیل کرنے یا عوام کی حالت زار کو بدلنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ سازی کا عمل نہیں او رنہ ہی کوئی سیاسی جماعتوں میں ایسے تھنک ٹینک یا پالیسی سازی کا عمل موجود ہے جو سیاسی جماعتوں کو مستحکم کرسکے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو خارجی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں وہ اہمیت نہیں رکھتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خارجی سطح کے جو مسائل بالخصوص سیاسی نظام او رسیاسی جماعتوں میں پس پردہ قوتوں کا عمل دخل یا مداخلت ہے اس کا مقابلہ کیا داخلی سیاست سے جڑے کمزور نظا م یا مسائل کی بنیاد پر ممکن ہے تو یقینی طور پر جوا ب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ داخلی سیاسی نظام کو جمہوری فکر اور سوچ کے تابع کرکے ہی ہم خارجی مسائل سے موثر انداز میں نمٹ سکتے ہیں۔
سیاسی نظام محض جمہوری ہی نہیں بلکہ اپنے اندر ایک ادارہ سازی کاعمل چاہتا ہے جہاں اوپر سے لے کر نیچے تک موجود قیادت پوری سیاسی جماعت سے جڑے نظام کو جوابدہ ہوتی ہے۔ سیاسی کارکن میں اپنی جماعت اور قیادت پر جو اعتماد ہوتا ہے وہی اس میں سیاسی ملکیت کا احساس بھی پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہاں سیاسی قیادتوں اور سیاسی کارکنوں سمیت ووٹروں کے درمیان جو واضح خلیج موجود ہے وہ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔
یہ جو سینیٹ کے انتخابات کا ماتم کیا جارہا ہے یہ ہر سینیٹ کے انتخاب کی کہانی ہے۔ سینیٹ کا انتخاب میں گھوڑوں کی جو بولیاں لگتی ہیں وہ عملا ہمارے جمہوری نظام کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔ لیکن سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر چیرمین اور ڈپٹی چیرمین کے انتخاب کا مجموعی عمل پر ہی بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا مجموعی سیاسی نظام کیا ہے او رکیسے افراد کا چناو کیا جاتا ہے۔ یہ کہانیاں بھی موجود ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں باقاعدہ ٹکٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ عمل پیسے والے کے لیے سیاسی نظام میں مواقع پیدا کرتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس دیگر افراد جو مالی طو رپر مضبوط نہیں ہوتے ان کے سیاسی مواقع محدود ہوتے ہیں۔
ایک منطق یا دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حال میں جو بڑی بڑی خرافات یا خرابیاں جنم لے رہی ہیں اس کی کئی مثالیں ہمیں ماضی کی سیاست میں نہیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ حالات بہتری کی بجائے بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
جمہوریت عملی طور پر کارپوریٹ جمہوریت کا ماڈل اختیار کرگئی ہے او رلوگ اس سیاسی نظام میں منافع کمانے یا دولت، اختیار یا طاقت جمع کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ لوگ سیاسی محاذ پر کسی بڑی جمہوریت کی جدوجہد کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فکری مغالطہ ہوگا۔ سیاسی جماعتیں طاقت کے حصول کے لیے ہر طرح کے اصولوں کو نظر انداز کرکے اپنے لیے ایسے راستوں کا انتخاب کرتی ہیں جو ان کو ذاتی طور پر سیاسی فائدہ دے سکے۔
جو بھی سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں کا داخلی جمہوریت خو داحتسابی یا جوابدہی کے نظام سے نہیں جڑے گی یا اس پر اس کا مکمل اعتقاد نہیں ہوگا اور عملی طور پر یہ نظام محض کاغذوں تک ہی محدود ہوگا تو سیاسی جماعتوں کے داخلی بگاڑ کو ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ جو لوگ بھی سیاسی جماعتوں کی سطح پر بے اصولیاں کرتے ہیں وہ بڑی شان و شوکت سے سیاسی جماعتوں میں موجود ہوتے ہیں اور قیادت کے قریب بھی پائے جاتے ہیں، جو بے لوث کارکنوں کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے۔
موروثی سیاست کے مسائل نے سیاسی جماعتوں میں قیادت کو چند خاندانوں تک محدود کردیا ہے۔ موروثی سیاست میں اگر لوگ واقعی کسی سیاسی نظام کا حصہ بن کر آئیں اور عملی جدوجہد کا آغاز نچلی یا ابتدائی سطح سے کریں تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ مگر ان موروثی سیاست میں جب سیاسی جماعتوں میں لوگ براہ راست قیادت سنبھال لیں تو یہ عمل سیاسی جماعتوں میں خاندان کی اجارہ داریوں کو مضبوط بناتا ہے۔
سیاسی او رجمہوری نظام کی کامیابی کی ایک بڑی کنجی اصلاحات سے جڑا نظام ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اگر سیاسی جماعتوں میں اصلاحات کا عمل نہ ہو یا روک دیا جائے یا یہ مصنوعی ہو تو پھر سیاسی جماعتوں کے آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ ہمارے یہاں سیاسی سطح پر اصلاحات کا بڑا فقدان پایا جاتا ہے چاہے وہ حکومتی سطح ہو یا حزب اختلاف کی دونوں سطحوں پر ہمیں بگاڑ نظر آتا ہے اورلگتا ہے کہ ان فریقین کی اصل توجہ کا مرکز اصلاحات نہیں بلکہ اپنی مفاداتی سیاست ہے۔ یہ جو اہل دانش یا عام آدمی کی سطح پر سیاسی جماعتوںاو ران سے جڑے افراد کے بارے میں جو مقدمہ ہے وہ کمزور کیوں ہے، اس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ براہ راست نہیں جڑے گی اس کی کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہوتی۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے اہل دانش جمہوریت پر اپنی بے بسی کا اظہا رکرتے ہوئے حالات کا درست تجزیہ پیش کریں اور سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کا بھی اسی انداز میں پوسٹ مارٹم کریں جیسے وہ خارجی مسائل کا کرتے ہیں۔ کیونکہ جب تک درست سمت میں ہم سیاسی جماعتوں او ران کی قیادتوں پر سیاسی دباو نہیں بڑھائیں گے سیاسی جماعتیں اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں ہونگی۔ سیاست میں عملی طور پر دباو کی سیاست کی بڑی اہمیت ہوتی ہے او ریہ دباو کی ہی سیاست ہوتی ہے جو بگاڑ میں سے اصلاح کا راستہ تلاش کرتی ہے۔ لیکن اگر یہ کام موثر انداز میں علمی و فکری بنیادوں پر نہیں ہوگا تو سیاسی جماعتوں، جمہوریت اور سیاست سے جڑے مسائل کا حل بھی ممکن نہیں گا او راسی تناظر میں ہمیں اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔