مقامی حکومتیں سیاسی عدم ترجیحات کا شکار
سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور مقامی مسائل کے موثر حل کے لیے مضبوط اور خود مختار" مقامی حکومتوں کا نظام" ضروری ہوتا ہے۔
اگرچہ ہماری سیاسی اورجمہوری قوتیں مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنے اپنے سیاسی منشور، تقریروں، تحریروں میں تسلیم کرتی ہیں، مگر عملاً سیاسی جماعتیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں اور ارکان اسمبلی ہی مقامی حکومت کے نظام کے خلاف ہیں۔
بنیادی مسئلہ مرکزیت کا نظام ہے اور ہم 18ویں ترمیم کے باوجود صوبائی سطح پر عدم مرکزیت کے نظام کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 1973کے دستور کی شق 140-A کی بھی نفی کرتے ہیں جو تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات بروقت کرانے، سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی واضح اور شفاف تقسیم کرنے، بیوروکریسی کے مقابلے میں عوام کے منتخب نمایندوں کو اختیارات کی تقسیم پر زور دیتا ہے۔
اسی طرح آئین کی شق32کی بھی نفی کی جاتی ہے جو عورتوں، کسانوں، مزدوروں، اقلیتوں اورنوجوانوں کی اس مقامی نظام میں موثر شمولیت اور اختیارات کی واضح تقسیم پر زور دیتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام عملی طور پر سیاسی اور قانونی تضادات کا شکار ہے اورہم ایک اچھا حکمرانی کا نظام قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
پچھلے دنوں اسلام آباد میں کامن ویلتھ لوکل گورنمنٹ فورم (CLGF)اور لوکل کونسل ایسوسی ایشن آف پنجاب (LCAP)نے دو دن کی قومی کانفرنس2021 " مقامی جمہوریت اور مستقبل کا تعین " کا انعقاد کیا۔ یہ ایک قومی کانفرنس تھی جس میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے اہم مقامی حکومتوں کے ماہرین، صوبائی ایسوسی ایشن، سابقہ منتخب نمایندے، میڈیا، سول سوسائٹی سے متعلقہ دو سو افراد نے شرکت کی۔
کانفرنس کی اہم بات صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا اختتامی سیشن سے خطاب سمیت وفاقی وزرا جن میں وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری، وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب، وزیر تعلیم شفقت محمود، وفاقی وزیر شبلی فراز اور بالخصوص چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے حکومتی ذمے داران جن میں پنجاب سے صوبائی وزیر بلدیات میاں محمود الرشید، سندھ سے صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی خصوصی شرکت تھی۔
اس کانفرنس کے انعقاد میں لوکل کونسل ایسوسی ایشن پنجاب کی صوبائی صدر فوزیہ وڑائچ، چیئرمین لوکل کونسل ایسوسی ایشن پنجاب چوہدری زاہد اقبال، چیف ایگزیکٹو آفیسر انور حسین، جاوید حسن اور خاص طور پر حکمران جماعت تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی چوہدری طاہر اقبال اور تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سینیٹر سیف اللہ نیازی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
کانفرنس میں سب کا اتفاق تھا کہ ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت ہے، لیکن کن وجوہات کی بنا پر ہم اپنے اپنے صوبوں میں ان مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل کو جاری نہیں رکھ سکے، اس پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ کانفرنس میں چاروں صوبائی حکومتوں کے مقامی نظام حکومت کے قوانین کا بھی جائزہ لیا گیا اور مختلف لوگوں نے اس نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔
کانفرنس میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا جن میں مسلم لیگ ن کے ارکان قومی اسمبلی خرم دستگیر، رانا تنویر، چوہدری خالد وڑائچ، فقیر حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے افتخار حسین شاہ، جماعت اسلامی کے عنایت اللہ خان اور بلوچستان سے ثنا اللہ بلوچ بھی شامل تھے۔
وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے اپنے خطاب میں درست بات کی کہ جب تک چاروں صوبائی حکومتیں اور ارکان اسمبلی مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بنائیں گی کچھ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ان کے بقول مقامی حکومتوں کے نظام کے تسلسل میں اصل رکاوٹ بھی صوبائی حکومتیں ہیں جو صوبائی سطح سے مقامی سطح پر سیاسی، انتظامی اورمالی طور پر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی حامی نہیں۔
فواد حسین چوہدری نے ایک قدم آگے بڑھ کر تسلیم کیاکہ ان کی پنجاب اورخیبر پختونخواہ میں موجود صوبائی حکومتیں بھی اپنے صوبوں میں بروقت انتخابات کے انعقاد کو یقینی نہیں بناسکیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری جماعت کو عام انتخابات کے فوری بعد مقامی حکومتوں کے نظام کے انتخابات کا انعقاد کرنا چاہیے تھا، مگر صوبائی حکومتیں اس کے لیے تیار نہیں تھیں اوراب بھی اگر صوبائی حکومتیں اس نظام کو مربوط، مضبوط اورخود مختار نہیں بنائیں گی مقامی حکومتوں کا نظام اپنی اصل افادیت نہیں دکھاسکے گا۔
کانفرنس میں چھ اہم نکات کو بھی زیر بحث لایا گیا جن میں اول کہ ہمیں اس پر تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم ستربرس سے ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کے تجربات ہی کررہے ہیں۔ دوئم ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ سوئم مقامی حکومتوں کے منتخب نمایندوں، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اوربیوروکریسی کے درمیان اس نظام پر جو ٹکراو یا اختیارات کی کھینچاتانی ہے اس نے بھی مسائل پیدا کیے۔ چہارم، ہمیں ان اداروں کو قانونی اورآئینی تحفظ دینا ہوگا۔ پنجم قومی ترقی اہداف 2030 کو بھی یقینی بنانے کے لیے ہمیں مقامی حکومتوں کے نظام پر فوقیت دینی ہوگی۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ مقامی حکومتوں کا نظام18ویں ترمیم کے بعد صوبائی سبجیکٹ ہے، لیکن اس اہم اورحساس حکمرانی کے نظام سے جڑے معاملات کو محض صوبوں تک محدود کرکے وفاق اپنی جان نہیں چھڑاسکتا۔ وفاق کا کردار بنتا ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کو ایک سیاسی اور آئینی یا قانونی فریم ورک کا ماڈل دے۔