Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Salman Abid
  3. Mukalma Ka Culture Aagay Barhana Hoga

Mukalma Ka Culture Aagay Barhana Hoga

مکالمہ کا کلچرآگے بڑھانا ہوگا

پاکستانی قوم کا ایک بڑا مسئلہ مکالمہ کے کلچر کا فقدان ہے اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہمیں بند دروازوں کے بجائے کھلے دروازوں یا ذہن کے ساتھ مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں مکالمہ کا کلچر کمزور ہو رہا ہے اور سب ہی فریقین انفرادی یا اجتماعی سطح پر مکالمہ کے بجائے اپنے خیالات، سوچ اور فکر سمیت اظہار میں تنگ نظری پیدا کرکے مکالمہ کے کلچر کو بند کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

ایسا نہیں کہ ہم مکالمہ کرنا نہیں چاہتے، مگر مکالمہ ایسا چاہتے ہیں جو ان کی مرضی اور منشا کے مطابق ہو یا لوگ ان کی سوچ اورخیالات کو چیلنج نہ کریں تاکہ وہ اپنی بات دوسروں پر مسلط کرسکیں۔ حالانکہ مکالمہ ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے اوراس میں ضروری نہیں کہ فریقین کے خیالات ایک جیسے ہوں۔ مکالمہ کی ایک بنیاد نہ صرف دو طرفہ ہوتی ہے بلکہ یہ مختلف خیال اور فکر کے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔

مکالمہ کا مقصد اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنا یا ایسا جذباتی انداز اختیار کرنا جو ایک دوسرے کے جذبات میں انتہا پسندی یا شدت پسندی کو پیدا کرے وہ مکالمہ کے کلچر کا دروازہ بند کرتا ہے۔ مکالمہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنا نکتہ نظر یا سوچ و فکر کا تبادلہ خیال ہوتا ہے اورایک فکر کے مقابلے میں ایک متبادل فکر کو سامنے لانا ہوتا ہے۔

لیکن اول تو یہاں مکالمہ کا کلچر بہت پیچھے چلا گیا ہے اوریہ ہی وجہ ہے کہ لوگ آپس میں مکالمہ پیدا کرنے کے بجائے فاصلہ رکھتے ہیں یا الجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو مکالمہ ہو بھی رہا ہے وہ مکالمہ کم اور لوگوں کو تقسیم کرنے کا زیادہ سبب پیدا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے خیالات، سوچ، فکر یا اظہار کو قبول نہ کرنا آپ کا بنیادی حق ہے مگر یہ ہی حق ہمیں دوسروں کو دینے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ محض آپ کا سچ مکمل سچ نہیں بلکہ ہمیں دوسروں کے بولے، کہے یا لکھے ہوئے لفظوں میں بھی سچ تلاش کرنا چاہیے۔ مکالمہ کا یہ انداز بنیادی طور پر آپ کو ایک مہذب اور ذمے دار شہری ظاہر کرنے کے علاوہ معاشرے کے رویے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

کیونکہ نئی سوچ، فکر اور دلیل عمومی طور پر اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم مکالمہ کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو بھی معاشرہ مکالمہ کی فکر کو بنیاد بنا کر اپنا راستہ تلاش کرتا ہے وہی اپنے مسائل کا حل بھی سیاسی اور جمہوری انداز میں ڈھونڈتا ہے۔ کیونکہ متبادل سوچ اور فکر کی بنیاد ہی مکالمہ سے جڑی ہوتی ہے اوریہ ہی قومی بنیاد بھی ہونی چاہیے۔ سیاسی، سماجی اورمذہبی تنگ نظری یا خیالات میں خود کو بڑا سمجھ کر دوسروں کو چھوٹا سمجھنے کی روش کے خاتمے کے لیے ہمیں ایک بڑا واضح ایجنڈا یا حکمت عملی سمیت نیا بیانیہ درکار ہے۔

مکالمہ کے فقدان کی وجہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی سیاسی، سماجی، لسانی، علاقائی اورمذہبی تقسیم ہے۔ اس تقسیم نے لوگوں میں یہ سوچ اور فکر بٹھا دی ہے کہ ہمیں مکالمہ یا نیا علم سیکھنے کے بجائے اسی انداز کو اختیار کرنا ہے جو ان کو دی جارہی ہے۔ اپنی سوچ، عقل، فہم اور تدبر پر پابندی عائد کرنا اورجو ان کے دماغوں میں ٹھونسا جارہا ہے اس کی اندھی تقلید کرنا بڑا المیہ ہے۔

سیاسی و مذہبی جماعتیں، میڈیا، اہل دانش، استاد، شاعر ادیب، لکھاری سب ہی ایک جگہ پر جمود کا شکار ہیں۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پہلے سے موجود طاقت کے مراکز جن کا اس نظام میں براہ راست فائدہ ہے وہ کبھی مکالمہ کا کلچر پیدا کرنے کی حمایت نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ سوالات کا ابھرنا، اٹھانا یا کسی بھی حوالے سے موجود طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے علمی و فکری مذاکرے تقریروں سے بھرپور ہوتے ہیں اور اس میں سوالات اٹھانے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ یہ ہی طرز عمل ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بھی بالادست نظر آتا ہے جہاں استاد اور شاگرد کے درمیان مکالمہ کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔

مکالمہ کے کلچر سے لوگوں میں ایک ڈر اور خوف بھی پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم جب بھی علمی و فکری بنیاد پر روایتی سوچ اورفکر کو چیلنج کریں گے تو ان کو نہ صرف مکالمہ کرنے والے سے بلکہ ریاستی، حکومتی و ادارہ جاتی نظام سے بھی ڈر لگتا ہے جو کسی نہ کسی بات کو بنیاد بنا کر ان کو کسی بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔

اسی طرح بعض واقعات مکالمہ کرنے کی بنیاد پر انتہا پسندی اورشدت یا تشدد میں تبدیل ہوتے ہیں جو لوگوں کو مکالمہ سے اور زیادہ دور لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس بحران کی ایک وجہ ہمارا تعلیمی و فکری نظام ہے جو لوگوں میں سوالات کو پیدا کرنے یا کسی نکتہ نظر کو چیلنج کرنے یا متبادل سوچ کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے گھروں کے نظام میں لوگوں کو بڑے رشتوں کے سامنے سر جھکانے کی تربیت دی جاتی ہے اورچیلنج کرنے والوں کو کسی بھی طور پر پسند نہیں کیاجاتا یا ان کی پذیرائی کرنے کے بجائے ان کی کھل کر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مکالمہ کا کلچر کسی سیاسی تنہائی میں ممکن ہے تو یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ بنیادی طور پر ہمیں واضح طور پر اپنے معاشرے کی فکر کو نئے خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں نئی فکر کو اختیار کرنا ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ لیکن یہ کام کسی ایک فریق نے نہیں کرنا اس میں تمام فریقین کو اپنا اپنا حصہ یا ذمے داری کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اس میں تعلیمی نظام، گھر سے جڑا تربیت کا ماحول، میڈیا کا کردار، نصاب میں تبدیلیوں کا عمل، سیاسی قیادت اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اس عمل میں بطور قیادت کے طور پر سامنے آنا، اہل دانش، شاعر، ادیب، لکھاری، فلمیں، ڈرامہ نگار، استاد، فن کار سب ہی کو اپنا حصہ ڈال کر ایک نئی سوچ اورفکر کو مضبوط و مربوط بنانا ہے جو لوگوں میں مکالمہ اور رواداری کے کلچر کو تقویت دے۔

ایک بات سمجھنی ہوگی کہ مکالمہ کا مقصد کسی کی سوچ یافکر کی دل آزاری کرنا نہیں ہوتا یا ہونا چاہیے۔ مکالمہ بنیادی طور پر ایک صحت مند و امن پسند معاشرے کی تشکیل نو میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی اپنی سوچ اور فکر کے دائرہ کار سے باہر نکل کر دوسروں کے خیالات اور فکر کو سن کر احترام کا رشتہ قائم کرنا ہوگا۔

متبادل سوچ اور فکر سے کسی کے نظریے سوچ اورفکر کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اورنہ ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ جب تک معاشرے میں سوچنے، پڑھنے اورلکھنے والے لوگوں یا متبادل بیانیہ پیش کرنے والوں کو اپنی فکری عمل میں آزادی نہیں دی جائے گی ہم پہلے سے موجود خول سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ فکری آزادی عمومی طور پر پہلے سے موجود بند دروازوں کو کھولنے کا سبب بنتی ہے اوریہ ہی معاشرے کی فکری ترقی سے جڑا ہوا عمل ہے۔

مکالمہ کو عام کرنا ایک سماجی، علمی و فکری تحریک سے جڑا ہوا عمل ہے اوریہ کام عملی طور پر رائے عامہ بنانے والوں کے درمیان ہونا چاہیے کہ وہ اس کام کی قیادت میں پیش پیش ہوں۔ اسی طرح مکالمہ کے انداز و فکر کو بھی نئی سوچ کی ضرورت ہے اور سمجھنا ہوگا کہ مکالمہ کیسے کیا جاتا ہے اور اس کا کیا انداز ہونا چاہیے۔

اس کام میں ہمیں بنیادی طور پر نوجوان نسل اورخاص طور پر تعلیمی نظام میں ایک بڑی سرجری کرنا ہوگی اورمیڈیا میں مکالمہ کے بجائے اپنی بات کو چاروں طرف سے مسلط کرنے کا جو کھیل عروج پر ہے اس کا متبادل پیش کرنا ہوگا۔ اس تحریک میں اگر تعلیمی ادارے خود کو ایک متبادل بیانیہ کے طور پرپیش کریں اوراپنے تعلیمی نظام میں مکالمہ کو بنیاد بنا کر نئے طور طریقے اختیار کریں تو یہ ہی معاشرے کی بڑی خدمت ہوگی۔

مکالمہ میں موجود رکاوٹوں میں ایک بڑی وجہ مطالعہ کی کمی ہے۔ مطالعہ کی عادت مکالمہ کو جنم دیتی ہے اور لوگوں کو سوالات پر اکساتی ہے اور یہ عمل ضروری ہے کہ بچوں اوربچیوں میں نہ صرف مطالعہ کی عادت پیدا کریں بلکہ اپنی مخالف سوچ اور فکر کا مطالعہ بھی ضروری ہے اوریہ ہی عمل مطالعہ سمیت کردار سازی کو بھی مضبوط بناتا ہے۔ ہمیں سوچ اور فکر کی جنگ میں اختلافات کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا اوریہ ہی ہماری علمی و فکری ترقی کا پیمانہ ہوسکتا ہے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari