مہنگائی اور حکومتی پالیسی
مہنگائی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حکومت، حزب اختلاف سمیت معاشرے میں موجودتمام طبقات میں بڑا اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ عمومی طور پر حکمران طبقہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ ملک میں مہنگائی ہے۔
مگر وزیر اعظم سمیت حکومتی وزرا بھی یہ تسلیم کررہے ہیں کہ ان کی اس حکومت کو بڑا چیلنج حزب اختلاف کے مقابلے میں مہنگائی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے شدید ردعمل سے ہے۔ پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں ایک بار پھر حالیہ بڑے اضافے نے حکومت کو عوامی سطح پر دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے۔
اگرچہ حکومت یا وزیر اعظم نے مہنگائی کو ہی بنیاد بنا کر120ارب کے بڑے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اور ان کے بقول اس30فیصد رعائتی سبسڈی بڑے پیکیج سے13لاکھ افراد مستفید ہوسکیں گے۔ مگر ایک طرف امدادی پیکیج تو دوسری طرف تسلسل اور تواتر کے ساتھ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں میں حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔
یہ بات تسلیم کرنے کی ہے عالمی دنیا کی معیشت میں بڑی تیزی سے بگاڑ سامنے آیا ہے۔ اس کی ایک بڑی اہم وجہ عالمی سطح پر کورونا کا بحران ہے جس نے عالمی معیشت کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور کیا ہے۔ یہ بحران ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس کی مختلف شکلیں آج بھی ملکی یا عالمی سطح پر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے دنیا میں معاشی ترقی اور سرگرمیوں میں کمی اور بے روزگاری سمیت لوگوں کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے۔
دوسری طرف عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 40ڈالر فی بیرل سے آگے 80ڈالر بیرل سے بھی بڑھ گئی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی تیل اور ڈیزل سمیت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ایک سطح پر عالمی حالات کی بدولت بھی ہے۔ یہ بات بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ حکومت نے عالمی صورتحال میں معاشی بگاڑ کے باوجود سارا بوجھ لوگوں پر ڈالنے کے بجائے لیوی اور درآمدی ڈیوٹی میں کمی اور قیمتوں میں عالمی سطح پر سارا بوجھ صارفین پر نہیں ڈالا، وگرنہ مہنگائی کی صورتحال آج سے بھی اور زیادہ خراب ہوتی اور لوگوں کو مزید مہنگائی کا بڑا ریلا برداشت کرنا پڑتا۔
حکومت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ مختلف اشیا کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتی ہے اور ان کے بقول مثال کے طور پر چینی بازار میں عام فرد کو 90روپے ملے گی۔ اول تو بازار میں 90روپے چینی کہیں بھی درکار نہیں اور اگر کہیں مل رہی ہے تو بہت ہی باریک اور عدم کوالٹی پر مبنی چینی یا محض ایک یا دو کلو تک چینی فراہم کی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ ہمارا وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا حکمرانی کا عدم شفافیت اور عدم جوابدہی کے نظام کا ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں اپنی ذمے داری حکمرانی کی شفافیت کے حوالے سے لینے کے لیے بالکل تیار نہیں اور نہ ہی مہنگائی کو کنٹرول کرنے، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، یا لوٹ مار کا کوئی سدباب کرسکی ہیں۔
اس میں سب سے اہم پہلو ضلعی سطح پر موثر سیاسی اور انتظامی نظام کی نااہلی کا ہے کیونکہ روزمرہ اشیا کی نگرانی اور شفافیت کے نظام کو قائم رکھنا صوبائی اور مقامی سطح کے سیاسی وانتظامی اداروں کی ہی ذمے داری بنتی ہے۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتی سطح پر ایک بڑا چیلنج معاشی معاملات کے تناظر میں بروقت معاشی فیصلوں کا نہ ہونا اور کمزور مینجمنٹ کا پہلو بھی نمایاں ہے۔
اگرچہ حکومتی سطح پر عالمی صورتحال کو بنیاد بنا کر مختلف طور طریقوں سے مہنگائی پر سیاسی، معاشی جواز پیش کیے جاتے ہیں لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کچھ سوالات کی نوعیت علمی و فکری سطح کی ہوتی ہے اور یہ فیصلہ ساز لوگوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ عام آدمی کی سمجھ بوجھ مہنگائی تک ہی محدود ہوتی ہے اور وہ اسے حکومت کی ناکامی کی صورت میں دیکھتا ہے۔