منفی رجحانات پر مبنی سوچ و فکر
یہ ایک بنیادی نوعیت کا سوال ہے کہ ہم بطور معاشرہ منفی بنیادوں پر کیوں سوچتے ہیں؟ اگر ہم اپنی علمی، فکری مباحث ہی کو دیکھیں تو لوگ مختلف امو رپر مثبت پہلوؤں کے مقابلے میں منفی پہلووں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ہماری گفتگو میں مایوسی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
کسی بھی امور پر تنقید کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ مگر ہم تنقید اور تضحیک کے درمیان بنیادی نوعیت کے فرق کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری گفتگو میں تنقید سے زیادہ تضحیک کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
یہ مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ تمام فریق کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم بطور قوم مکالمہ کے کلچر سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہم مکالمہ کے مقابلے میں اپنی سوچ و فکر کو ہی درست سمجھ کر دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں او ریہ ہی ہمارا علمی و فکری بیانیہ بھی بن گیا ہے۔
اختلاف کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے او رہمارے جیسے معاشرے کو کسی ایک مخصوص نقطہ نظر سے جبر کی بنیاد پر جوڑ کر نہیں رکھا جاسکتا۔ لیکن یہاں اختلافات کو بنیاد بنا کر خود کو بھی الجھانا اور سیاسی، سماجی، مذہبی، لسانی، علاقائی بنیادوں پر تقسیم پیدا کرنا ہمارے معمول کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ مخالف نقطہ نظر کے لوگوں کے بارے میں تعصبات، نفرت سمیت مختلف نوعیت کے سیاسی اور مذہبی فتوے بازی کے کھیل نے معاشرے کے حقیقی حسن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
کسی بھی پہلو یا چیز کے بارے میں جائزہ لیتے ہوئے ہم ایک ہی وقت میں مثبت او رمنفی پہلووں کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم رائے دیتے ہوئے یا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کیونکر محض منفی آنکھ سے چیزوں کو دیکھنے کے عادی بن گئے ہیں۔ ہمارے یہاں منفی خبر بڑی او رمثبت خبر چھوٹی خبر بن کر رہ گئی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب ہم ریٹنگ کی دنیا کا حصہ بن گئے ہیں تو منفی خبریں ہی پاپولر سیاست کا حصہ بن کر مثبت پہلووں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ہم اگر اپنی علمی و فکری مجالس کو دیکھیں تولگتا ہے کہ پاکستان برباد ہوگیا ہے، ہم بہت ہی کمزور ہوگئے ہیں، معاشرہ مکمل طور پر بگاڑ کا شکار ہوگیا ہے، یہاں کسی کو کوئی بنیادی حق حاصل نہیں، ہم کرپٹ لوگ ہیں، انصاف کا نظام عملا مفلوج ہوگیا ہے، ریاستی و حکومتی ادارے تباہ ہوگئے ہیں، ترقی ہم سے دور ہے یا پاکستان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ مباحث سن کر ایسے لگتا ہے کہ ہم بطو رمعاشرہ مفلوج ہوگئے ہیں یا ہم ناکام ریاست میں تبدیل ہوگئے ہیں۔
بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم خود دنیا میں اپنی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ماتم کرنا ہمارا قومی فیشن بن گیا ہے او رجب ان کے سامنے کوئی بھی مختلف قسم کے مثبت پہلووں کو اجاگر کرے تو پھر ان کو طاقت کے مراکز کا ایجنٹ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
مسائل دنیا میں موجود ہیں اور وہاں کا اہل دانش یا ریاستی وحکومتی نظام ان مسائل کا حل تلاش کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے بہت سے لوگوں کو صرف ساری خرابی پاکستان میں ہی نظر آتی ہے۔
میڈیا کی ریٹنگ نے بھی لوگوں کو منفی باتوں میں بہت زیادہ الجھا دیا ہے او ربدقسمتی سے مثبت بات کے مقابلے میں منفی بات میڈیا میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے تاکہ لوگوں کو متوجہ کرکے ریٹنگ کے عمل کو زیادہ طاقت دی جائے۔ اسی طرح میڈیا میں مجموعی طور پر تنقید تو بہت ہوتی ہے مگر ان مسائل کے حل کی طرف سنجیدہ کوششوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا میں جو مختلف امو رپر منفی کھیل نمایاں ہے، اس نے بھی لوگوں کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلاکردیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم نے کسی بھی شعبہ میں ترقی یا پیش رفت نہیں کی سوائے بربادی کے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ ہم اپنا او رملک کا سافٹ امیج کیوں نہیں پیش کررہے او رکیا واقعی ایسا کوئی امیج نہیں جو اس ملک کی او رملک میں موجود لوگوں کی مثبت عکاسی کرسکے؟ اصل میں مسئلہ ہماری اجتماعی سوچ او رفکر کا ہے او رہم مثبت باتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ منفی انداز میں سوچنے کے عادی بنتے جارہے ہیں۔
اس میں قصور کسی ایک فر دیا ادارے کا نہیں بلکہ سارے ہی معاشرتی، سیاسی، سماجی او رریاستی فریق ہی ذمے دار ہیں جو معاشرے کی تشکیل نو اور رائے عامہ کو مثبت انداز میں تشکیل دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہمارا رسمی یا غیر رسمی تعلیمی نظام ذہن سازی کو بنانے میں ناکام ہوا ہے۔ ہم شواہد اورحقایق کے مقابلے میں زیادہ جذباتیت کے انداز میں سوچتے ہیں اوریہ عمل بلاوجہ کی معاشرے میں ردعمل کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔
فرد یا معاشرے کے کسی فریق یا ادارہ کے اندر اگر مجموعی طور پر مایوسی او رناکامی کی کیفیت ہوتی ہے تو وہ اس کو خود تک محدود نہیں کرتا بلکہ وہ اس مایوسی کو ایک بڑی مایوسی بنا کر دوسروں میں بھی منتقل کرتا ہے۔ اس لیے اگر مایوسی کے کاروبار کو ہم نے جان بوجھ کر یا لاشعوری طور پر پھیلانا ہے تو اس سے معاشرے کی مثبت تشکیل نو ممکن نہیں ہوگی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مثبت سوچ کو ئی ٹیکہ نہیں کہ وہ اگر کسی کو لگادیا جائے تو پھر اس کے بعد وہ بس مثبت ہی سوچے گا۔
یہ ایک عمل ہے جس نے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنا ہے او را س میں آگے بڑھنے کی جستجو، لگن، شوق اور محنت ہی ہمیں مایوسی سے نکا ل کر مستقبل اورامید یا ترقی کے عمل میں لے کر جاتی ہے۔ اس لیے خدارا بطور معاشرہ کے فرد کے ہمیں محض مایوسی کو بنیاد بنا کر اپنا بیانیہ پیش کرنے کے بجائے تعمیری انداز میں بھی اپنی سوچ او رفکر کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ہمارا انداز یا عمل معاشرے کی تعمیر نو پر ہی ہونا چاہیے نہ کہ ہم انتشار کی سیاست کا حصہ بنیں۔