کیا کوئی پیپلز ایکٹ بھی بن سکے گا؟
پاکستان کی سیاست، سماجیات اور معیشت میں بنیادی کنجی عام آدمی یا کمزور طبقات کی سیاست ہے۔ کمزور سیاسی ترجیحات اور عوامی مسائل کی درست نشاندہی نہ ہونا، حکمرانی کے نظام میں ہمیں ایک بڑی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک طرف امیر اور غریب میں بڑھتی ہوئی تفریق ہے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ریاست، حکومت اورعوام کے درمیان بداعتمادی کا رشتہ ہے۔
پاکستان کا حکمران سیاسی طبقہ ہو یا فوجی حکمران طبقہ سمیت بالادست طبقات ان سب کی ترجیحات اپنے ذاتی مفادات کی سیاست ہوتی ہے۔ جو بھی پالیسیاں یا قانون سازی ہوتی ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق طاقت کے مراکز سے جڑا ہوتا ہے۔ اگرچہ سیاست اور جمہوریت میں بنیاد عوام ہوتی ہے مگر اقتدار کے کھیل میں سب سے زیادہ استحصال کا نشانہ عام آدمی ہی بنتے ہیں۔ ہم ریاستی و حکومتی اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس میں انسانی ترقی کے تناظر میں ایک واضح خلا یا خلیج نظر آتی ہے اوراس پر عالمی دنیا میں پیش ہونے والی ہماری درجہ بندی بھی داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر تنقید ہوتی ہے۔
حال ہی میں آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترمیم پر جس طرح سے حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے باہمی اتفاق پر مبنی سیاست کی ہے وہ ہر طبقہ میں لوگوں کے لیے بڑا سوال بھی پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ ہم نے تو حکومت اور حزب اقتدار میں محاذ آرائی کی سیاست سمیت ایک دوسرے کے وجود کو قبول نہ کرنے کی سیاست دیکھی ہے۔ اس لیے جب طاقت کے جاری کھیل میں تمام سیاسی فریق ایک ہوتے ہیں تو یہ تاثر بھی گہرا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ عام یا کمزور آدمی کی سیاست میں یہ ہی سیاسی فریق اتفاق رائے کیوں نہیں پیدا کرتے۔ کیا وجہ ہے کہ مختلف امور پر قانون سازی یا پالیسی سازی تو ہوتی ہے مگر اس میں عام آدمی کا مقدمہ کمزور نظر آتا ہے۔
کیا واقعی ہم اپنی سیاست، جمہوریت اور ریاستی نظام میں کوئی ایک بڑا "پیپلز عوامی ایکٹ" کی تشکیل کر سکیں گے۔ ایسا ایکٹ جو عوامی حلقوں کی خواہشات اور محروم طبقات کے مسائل کو بنیاد بنا کر ان کو معاشرے میں خوشحالی کو یقینی بنا سکے۔ یہ ہی آج کے سیاسی بحران میں حکمرانی کے نظام میں موجود خلیج یا مایوسی کی کیفیت کو ختم کر کے لوگوں میں ایک نئی امید اور امنگ کو پیدا کر کے حکمرانی کی ساکھ کو موثر بنا سکتی ہے۔ مسئلہ محض قانون سازی یا پالیسی سازی نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کا موثر نظام ہونا چاہیے۔
عام یا کمزور طبقے کے مسائل بڑے واضح ہیں اور اس کے لیے کوئی بڑی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، مہنگائی، انصاف، تحفظ، گھرکی عدم فراہمی یا تما م لوگوں تک ان کی عدم فراہمی سمیت پٹرول، ڈیزل، تیل، گیس، بجلی، ادویات اور روزمرہ کی اشیا پر عام آدمی کی عدم رسائی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ہمارا حکمرانی کا نظام بنیادی طور پر طبقاتی تقسیم سے جڑا ہوا ہے۔ ہم حکمرانی عوام سے زیادہ ایک مخصوص سیاسی طاقتور طبقہ یا اپنے مفادات سے جڑے طبقات کے لیے کرتے ہیں۔ ایسی حکمرانی کے نظام میں عام آدمی کی حیثیت یا ترقی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ دنیا میں اب حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے سب سے زیادہ توجہ انسانی ترقی پر دی جاتی ہے۔ جب کہ ہماری پالیسی انسانی ترقی سے زیادہ انتظامی نوعیت یا ڈھانچہ کی ترقی ہوتی ہے۔
مسئلہ محض اقتدار پرست جماعتیں ہی نہیں بلکہ ہمارا مجموعی سیاسی نظام اوراس سے جڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ عملی طورپر سیاسی جماعتوں کے پاس عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ٹھوس پروگرام ہی نہیں رکھتی۔ جو عام آدمی کے مسائل ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ہم کو سیاسی جماعتوں میں کوئی تھنک ٹینک یا پالیسی ساز ی نظر نہیں آتی۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ حکومت کے مقابلے میں حزب اختلاف کی حیثیت مستقبل میں نئی حکومت کی ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی عام آدمی کی سیاست کے مقدمہ میں بہت کمزور ہیں اوران کی ترجیحات عام آدمی کی سیاست سے بالکل مختلف ہے۔
جب پیپلز ایکٹ کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد نظام کی ایک بڑی سرجری بھی ہوتا ہے۔ ہم سب متفق ہیں کہ ہمارا نظام فرسودہ ہو گیا ہے۔ ہمیں نئی قانون سازی یا پالیسی سازی سے زیادہ ریاستی و حکومتی نظام کے ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کو یقینی بنانا ہے۔ ہماری حکمرانی کا المیہ یہ ہے کہ اس میں غیر معمولی اقدامات کے بجائے روایتی طرز کی حکمرانی کا نظام غالب نظر آتا ہے۔ ہماری حکمرانی میں موجود بداعمالیاں ایک کینسر کی نشاندہی کرتا ہے جب کہ ہم اس کا علاج ڈسپرین سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو یقینا بے سود ہے۔
پیپلز ایکٹ سے مراد عام آدمی کی سیاست ہے جہاں محض اس کی ضرورت ہی پوری نہ ہوتی ہو بلکہ اس کی حیثیت بھی مستحکم ہوتی ہے۔ یہ کام اس صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ریاست اور حکومت نہ صرف ذمے داری کا مظاہرہ کرے۔ حکمران طبقہ کا کام محض لوگوں کو خیراتی عمل میں شامل نہیں کرنا بلکہ ان کے لیے ایسی پالیسیاں ترتیب دینا ہے جو نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لا کر معاشرے میں حقیقی خوشحالی کی بنیاد رکھ سکے۔ یہ جو معاشرہ میں دہرا نظام ہے اس کو بدلنا اوراس میں عام آدمی کے لیے احساس حکومت یا ملکیت کو پیدا کرنا ہی حکمرانی کا اصول ہونا چاہیے۔
لوگوں کو نظر آنا چاہیے کہ جس طرح ریاست یا حکمران طبقات اپنے مفادات کے لیے بغیر کسی خوف کے ایک ہو سکتے ہیں تو یہ ہی طبقہ عام طبقہ کے مفاد میں بھی ایک ہو کر ان کی آواز بن سکتا ہے۔ وگرنہ یہ نام نہاد جمہوریت یا قانون کی حکمرانی کا کھیل یا اس میں عوام کو محض خوش نما نعروں کے ساتھ بہلا کر رکھنے کا کھیل نہ تو پہلے کوئی نظام کی ساکھ کے حوالے سے افادیت پیدا کر سکا اور نہ ہی یہ عمل مستقبل کی جمہوری طرز کی سیاست میں کوئی نئے محفوظ راستے کھول سکے گا۔ پیپلز ایکٹ سے مراد محض حکمران طبقہ ہی نہیں بلکہ عام آدمی کو بھی اپنا سیاسی مقدمہ ایک نئے سیاسی شعور کے ساتھ سمجھنا ہو گا۔ بلاوجہ کی جذباتی طرز کی سیاست یا سیاست دانوں کے پیچھے پوجا پاٹ کی سیاست سے باہر نکل کر عام آدمی کو بھی سمجھنا ہو گا کہ اس مروجہ سیاسی نظام میں ان کی حقیقی حیثیت کیا ہے اوروہ کیوں استحصا ل کا شکار ہے۔
پیپلز ایکٹ کی بنیاد ایک ایسے منصفانہ اورمہذب معاشرے کے طور پر ہو گی جہاں لوگوں کو برابری کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم، عام آدمی کی ترجیحات کا تعین، کمزور طبقات کو ترجیحی بنیادوں پر نظام میں فوقیت دینا، معاشرے میں بڑھتی ہوئی سیاسی اورمعاشی خلیج، نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی اورمقامی سطح پر ایک ایسا نظام حکومت جس پر سب طبقات کی رسائی ہو۔ اگر سیاسی عمل میں سیاسی جماعتیں اورحکمران طبقات مل کرپیپلز ایکٹ کو اپنی ترجیحات کی بنیاد بنائیں تو اس عمل سے سیاسی نظام، سیاست، جمہوریت اور اس معاشرے کی اخلاقی ساکھ بھی قائم ہو سکے گی۔ وگرنہ دوسری جانب ایک ایسی سیاست جس میں سب کچھ ہوتا ہو مگر عام آدمی کو سوائے ہر قسم کے استحصال کے کچھ نہ ملتا ہو تو اس کا ریاست، حکومت، اداروں اور نظام سے اعتماد بھی اٹھتا ہے اوروہ لاتعلق بھی ہوتا جو کسی بھی نظام کے لیے ایک بڑے خطرے سے کم نہیں۔